راحت بلکہ فخر اور عزت ہے۔
رواقِ منظر ما چشمِ آشیانہ تست
کرم نماء و فردد آکہ خانہ خانہ تست
(کوتوال صاحب) تسلیم مشکور ہوں مگر۔
دوستو! درد کو محفل میں نہ تم یاد کرو
نہ کہیں عیش تمہارا بھی منفض ہووے
دیکھئے نا میرے آنے سے آپ سب خاموش ہوگئے۔ پہلے بلبل کی طرح سے چہک رہے تھے۔
ہمارے خان صاحب (مکین) تو آپ کے ایسے چنگ پر چڑھے ہیں کسی قماش کے بھی نہیں رہے۔ جب سے مرزا صاحب سے دست بیع ہوئی بدون آپ کے حکم کے کسی سے ملنا تو کیا سلام علیک کے بھی روا دار نہیں۔
خاں صاحب… بھائی صاحب! میرا دل ہی بجھ سا گیا۔ دنیا کی محبت سے بالکل سرد ہوگیا۔ کسی سے ملنے اور میل ملاپ رکھنے کو نہیں چاہتا۔ جب سے حضرت اقدس سے بیعت کی۔ دنیا و مافیہا سے طبیعت بیزار ہوگئی۔ اب گوشہ تنہائی اور یاد الٰہی کو ہی دل چاہتا ہے۔
کوتوال صاحب… ہاں یہ امر تو محتاج بیان نہیں۔ آپ کے حالات ہی شاہد ہیں۔ آپ بھی قال اللہ اور قال الرسول کے سواء اور کوئی ذکر نہیں تھا۔ اور اب اس جلسہ کے بعد بھی آپ عبادت الٰہی کے واسطے جائیں گے۔ تو ایک بجے کے قریب ہی واپس آئیں گے ہم تو ان شغل کے لائق نہیں جس میں آپ مشغول تھے نہ دوسرے شغل میں جو اس کے بعد ہوگا ہم سے آپ کی طبیعت کیوں ملنے لگی۔حاضرین… نہیں اس میں تو کلام نہیں کہ ہمارے حضرت اقدس کی بیعت کا یہ تو فوری اثر ہے۔ ادھر بیعت ہوا ادھر تائب ہوا۔ اور کل منہیات سے متنفر۔
کوتوال صاحب… صاحباں! آپ میں سے کوئی ولایت سے تو آیا نہیں۔ سب اس جگہ کے رہنے والے یہیں پیدا ہوئے یہاں ہی پرورش پائی۔ ہوش سنبھالا میں بھی ولایت سے نہیں آیا جو آپ کے حالات سے بے خبر ہوں۔ دائی سے تو پیٹ نہ چھپائیے۔
خاں صاحب… جناب بھائی صاحب! یہ بات تصنع یا مبالغہ سے نہیں کی گئی۔ صحیح ہے اور بالکل صحیح ہے اگر آپ کو اس میں کلام ہے۔ ہم اتنے شخص بیٹھے ہیں۔ ان میں سے کسی کا نام لے دیجیے مگر