کریں۔ اور ہر ایک پیشگوئی کے لیے ایک ایک سو روپیہ انعام دیا جائے گا۔ اور آمد ورفت کا کرایہ علیحدہ۔‘‘ (ص۱۱، خزائن ج۱۹ ص۱۱۷،۱۱۸)
’’مولوی ثناء اللہ نے کہا تھا۔ کہ سب پیشگوئیاں جھوٹی نکلیں۔ اس لیے ہم ان کو مدعو کرتے ہیں۔ اور خدا کی قسم دیتے ہیں۔ کہ وہ اس تحقیق کے لیے قادیاں میں آئیں۔ رسالہ نزول المسیح میں ڈیڑھ سو پیشگوئی میں نے لکھی ہے۔ تو گویا جھوٹ ہونے کی حالت میں پندرہ ہزار روپیہ مولوی ثناء اللہ صاحب لے جائیں گے اس وقت ایک لاکھ سے زیادہ میری جماعت ہے۔ پس اگر میں مولوی صاحب موصوف کے لیے ایک ایک روپیہ بھی اپنے مریدوں سے لوں گا۔ تب بھی ایک لاکھ روپیہ ہو جائے گا۔ وہ سب ان کی نذر ہوگا۔‘‘ (ص۲۳، خزائن ج۱۹ ص۱۳۲)
مولوی صاحب… ہم مرزا صاحب کی صداقت اور راست بیانی کے ظاہر کرنے کو ان کے حوالہ رسالہ انجام آتھم وغیرہ کی بھی پڑتال کرتے ہیں۔ آپ انجام آتھم کے صفحہ اخیر پر بیشک یہ لکھتے ہیں کہ: ’’ہم نے پختہ ارادہ کرلیا ہے۔ کہ اس سے بعد علماء سے خطاب نہ کریں گے۔ گو وہ ہم کو گالیاں دیں اور یہ کتاب ہمارے خطابات کا خاتمہ ہے۔‘‘
اس کتاب (انجام آتھم) پر گو تاریخ طبع نہیں۔ مگر اس کے اول صفحہ سے ۱۸۹۶ء معلوم ہوتا ہے۔ حالانکہ اس کے بعد آپ نے علماء کرام کو صاف مباحثہ اور مقابلہ کے واسطے بلایا ہے۔ چنانچہ آپ ۲۵؍مئی ۱۹۰۰ء کے (اشتہار معیار الاخیار، مجموعہ اشتہارات جدید ایڈیشن اشتہار نمبر۲۲۳ ص۳۹۰) پر لکھتے ہیں۔
’’اگر آپ لوگ اے اسلام کے علمائ! اب بھی اس قاعدہ کے موافق جو سچے نبیوں کی شناخت کے لیے مقرر کیا گیا ہے۔ قادیاں سے کسی قریب مقام میں جیسا کہ بٹالہ ہے یا اگر آپ کو اگر انشراح صد میسر آئے۔ تو خود قادیاں میں ایک مجلس مقرر کریں۔ جس مجلس کے سرگروہ آپ کی طرف سے چند ایسے مولوی صاحباں ہوں۔ کہ جو حلم اور برداشت اور تقویٰ اور خوفِ باری تعالیٰ میں آپ لوگوں کے نزدیک مسلم ہوں۔ پھر ان پر واجب ہوگا۔ کہ منصفانہ طور پر بحث کریں۔ اور ان کا حق ہوگا۔ کہ تین طور سے مجھ سے اپنی تسلی کرلیں۔
۱… قرآن و حدیث کی رو سے۔
۲… عقل کی رو سے۔
۳… سماوی تائیدات اور خوارق اور کرامات کی رو سے۔
کیونکہ خدا نے اپنے کلام میں مامورین کے پرکھنے کے لیے یہی تین طریق بیان