صاحب کی زبان سے سنی ہیں۔ جو کسی چوہڑے چمار سے بھی کبھی نہیں سنیں۔
محمد ابراہیم… (یہ بھی حکیم صاحب کے ساتھ تھے) میں بیان نہیں کرسکتا۔ جو الفاظ مرزا صاحب نے علماء اسلام کی نسبت عموماً اور آپ (مولوی ثناء اللہ) کی نسبت خصوصاً فرمائی ہیں۔
حواری… (مولوی ثناء اللہ صاحب سے) یہ خط حضرت اقدس امام ہمام نے یہ نامہ بجواب تمہارے خط کے دیا ہے۔
مولوی صاحب… (خط کو دیکھ کر) چونکہ میرا روئے سخن خود بدولت سے تھا۔ اس لیے میرا حق تھا۔ کہ میں کسی ان کے ماتحت کی تحریر نہ لیتا۔ مگر اس حال سے کہ پبلک کو مرزا جی کے فرار کا نشان بتلایا جائے۔ اس خط کو قبول کرتا ہوں۔ ان حضرات مرسلین رقعہ یا گواہاں کی حالت پر افسوس نہیں بلکہ افسوس ان لوگوں پر ہے۔ جو ایسے لوگوں کو دراز ریش دیکھ کر مولوی یا عالم سمجھ لیتے ہیں۔ جن کو یہ بھی خبر نہیں۔ کہ مناظرہ اور تحقیق ایک ہی چیز ہے۔ رشیدیہ جو علم مناظرہ میں ایک مستند کتاب ہے۔ اس میں صاف مرقوم ہے کہ کسی مسئلہ کی نسبت دو شخصوں کا نیک نیتی اور سچائی کے اظہار کرنے کی غرض سے متوجہ ہونا اسی کا نام مناظرہ ہے۔
حوالدار… مولوی صاحب سلام۔ کیوں صاحب! ہم کیا کہتے تھے۔ حضرت! ہم ایسے لکھے پڑھے نہیں۔ مگر اردو کی کتابیں دیکھ کر اپنا مطلب سمجھ لیتے ہیں۔ مرزا صاحب کا حال کوئی مخفی راز تو ہے نہیں۔ روز اخباروں اور اشتہاروں میں شائع کرتے ہیں۔ کسی اقرار پر کسی جگہ قائم رہے ہیں؟ جو آپ سے وعدہ وفا کرتے۔
کرے ایفا وعدے کا اقرار کرکے
کوئی اور ہوگا وہ مرزا نہ ہوگا
حکیم صاحب… حضرت بندہ نے امرتسر سے چلتے وقت عرض کیا تھا۔ کہ آپ کیوں ناحق خراب ہوتے ہیں۔ مرزا صاحب ہرگز ہرگز آپ کے مقابلہ پر نہیں آئیں گے۔ اور نہ وہ گفتگو کریں گے۔ یہ ان کی عادت مسمرۃ ہے۔ دعوت تو دے بیٹھتے ہیں۔ مگر پھر بہزار حیلہ گریز کر جاتے ہیں۔
خوئے بد را بہانہ ہا بسیار
مولوی صاحب… ان کی حجت تو پوری کرنی تھی۔ یہ تو میں بھی جانتا تھا کہ مقابلہ پر وہ نہ کبھی پہلے آئے ہیں۔ نہ اب آئیں گے۔ رسالہ (اعجاز احمدی ص۱۱،۲۳، خزائن ج۱۹ ص۱۱۹،۱۳۰) پر ہم کو ان لفظوں میں دعوت دیتی ہیں۔
’’اگر یہ (مولوی ثناء اللہ) سچے ہیں۔ تو قادیاں میں آ کر کسی پیشگوئی کو جھوٹی تو ثابت