علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خدمت مبارک میں سنا دیا گیا۔ چونکہ مضامین اس کے محض عناد اور تعصب آمیز تھے۔ طلب حق سے بعد المشرقین کی دوری اس سے صاف ظاہر کرتی ہے۔ لہٰذا حضرت اقدس کی طرف سے اس کا یہی جواب کافی ہے کہ آپ کو تحقیق حق منظور نہیں ہے۔ اور حضرت اقدس انجام آتھم میں اور نیز اپنے خط مرقومہ جواب رقعہ سامی میں قسم کھا چکے ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ سے عہد کر چکے ہیں۔ کہ مباحثہ کی شان سے مخالفین سے کوئی تقریر نہ کریں گے۔ خلاف معاہدہ الٰہی کے کوئی مامور من اللہ کیونکر کسی فعل کا ارتکاب کرسکتا ہے۔ طالب حق کے لیے جو طریق حضرت اقدس نے تحریر فرمایا ہے۔ کیا وہ کافی نہیں۔ لہٰذا آپ کی اصلاح جو بطرز شانِ مناظرہ آپ نے لکھی ہے۔ وہ ہرگز منظور نہیں ہے۔ اور یہ بھی منظور نہیں ہے۔ کہ جلسہ محدود ہو۔ بلکہ فرماتے ہیں کہ کل قادیاں وغیرہ کے اہل الرائے مجتمع ہوں۔ تاکہ حق و باطل سب پر واضح ہو جائے۔
والسلام علی من اتبع الھدی: ۱۱ جنوری ۱۹۰۳ء
خاکسار محمد احسن بحکم حضرت امام الزماں
گواہ شد محمد سرور و ابو سعید عفی عنہ
خط پڑھ کر حضرت اقدس امام الزماں کو سنایا گیا۔
حضرت… خبیث گستاخ حفظ مراتب تو جانتے ہی نہیں۔ اس سؤر سے کوئی دریافت کرے۔ کہ خدا کے مرسل اور نبیوں کو اسی طرح شوخی اور شرارت سے گستاخانہ خط لکھا کرتے ہیں۔
حواری… حضور یہ کیا اس کے ہم خیال یہودی صفت علماء اسلام کل دریدہ دہن گستاخ ہیں۔ خدا کے مسیح موعود اور مرسل صادق اور نبی برحق کی شان میں بے ادبی کرنا اپنا فرض منصبی سمجھ رکھا ہے۔ خدا ان کو سزا بھی تو نہیں دیتا۔
حضرت… ان گوہ خور یہودیوں کے بڑے بھائیوں کو عنقریب کتے کی موت مارے گا۔ کہ بد ذات اونٹوں کی طرح سوتے رہ جائیں گے۔
حواری… ہم اس کو کبھی نہ بولنے دیں گے۔ گدھے کی طرح لگام دے کر بٹھائیں گے۔ اور گندگی اس کے منہ میں ڈالیں گے۔ لعنت ہی لے کر جائے گا۔
حضرت… اس نابکار سے کہہ دو کہ وہ لعنت لے کر قادیاں سے چلا جائے۔
حکیم محمد صدیق… (جو مولوی صاحب کا خط مرزا صاحب کی خدمت میں لے گئے تھے۔ ان مغلظ دشنام کو سن کر سخت حیران ہو کر واپس آئے) مولوی صاحب سے۔ حضرت! سننے میںاور اس وقت کی حالت دیکھنے میں بڑا فرق ہے۔ ہم حلفیہ بطور شہادت کہتے ہیں۔ کہ ایسی گالیاں ہم نے مرزا