ہے۔ جناب من! کس قدر افسوس کی بات ہے۔ کہ آپ اعجاز احمدی کے صفحات مذکورہ پر تو اس نیاز مند کو تحقیق کے لیے بلاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ میں (خاکسار) آپ کی پیشگوئیاں کو جھوٹا ثابت کروں۔ تو فی پیشگوئی مبلغ سو روپیہ انعام لوں اور اس رقعہ میں آپ مجھ کو ایک دو سطریں لکھنے کے پابند کرتے ہیں۔ اور اپنے لیے تین گھنٹے تجویز کرتے ہیں۔ تلک اذا قسمۃ ضیزی بھلا یہ کیا تحقیق کا طریق ہے کہ میں ایک دو سطریں لکھوں اور آپ تین گھنٹہ تک فرماتے جائیں اس سے صاف سمجھ میں آتا ہے آپ مجھے دعوت دے کر پچھتا رہے اور اپنی دعوت سے انکاری ہیں اور تحقیق سے اعراض کرتے ہیں۔ جس کی بابت آپ نے مجھے (ص۲۳، خزائن ج۱۹ ص۱۳۲) پر دعوت دی ہے۔ جناب والا! کیا انہیں ایک دو سطروں کے لکھنے کے لیے آپ نے مجھے درِ دولت پر حاضر ہونے کی دعوت دی ہے جس سے عمدہ میں امرتسر میں بیٹھا کرسکتا تھا۔ اور کرچکا ہوں مگر چونکہ میں اپنے سفر کی صعوبت کو یاد کرکے بلانیل مرام واپس جانا کسی طرح مناسب نہیں جانتا۔ اس لیے میں آپ کی اس بے انصافی کو بھی قبول کرتا ہوں کہ میں دو تین سطریں ہی لکھوں گا اور آپ بلاشک تین گھنٹہ تک تقریر کریں۔ مگر اتنی اصلاح ہوگی کہ میں اپنی دو تین سطریں مجمع میں کھڑا ہو کر سنائوں گا اور ہر گھنٹہ کے بعد پانچ نہایت دس منٹ تک آپ کے جواب کی نسبت رائے ظاہر کروں گا اور چونکہ آپ مجمع عام پسند نہیں کرتے۔ اس لیے فریقین کے معدود آدمی آئیں گے جو پچیس پچیس سے زیادہ نہ ہوں گے۔ آپ میرا بلا اطلاع آنا چوروں کی طرح فرماتے ہیں۔ کیا مہمانوں کی خاطر اسی کو کہتے ہیں۔ اطلاع دینا آپ نے شرط کیا تھا؟ علاوہ اس کے آپ کو آسمانی اطلاع مل گئی ہوگی آپ جو مضمون سنائیں گے۔ وہ اسی وقت مجھ کو دیدیا جائے گا۔ کارروائی آج وہی شروع ہو جائے۔ آپ کے جواب آنے پر میں اپنا مختصر سا سوال بھیج دوں گا۔ باقی لعنتوں کی نسبت وہی عرض ہے۔ جو حدیث میں موجود ہے۔ مورخہ ۱۱؍جنوری ۱۹۰۳ء
خط پڑھ کے اور بھی وہ ہوا پیچ و تاب میں
کیا جانے لکھ دیا اسے کیا اضطراب میں
رقعہ آدمی لے جا کر مرزا صاحب کی خدمت میں پیش کیا۔ نہایت طیش و غضب میں آئے۔ ہزاروں بے نقط سنائیں۔ اور حوارئین کو حکم دیا کہ جواب لکھ دو۔
جواب بحکم مرزاقادیانی
بسم اﷲ الرحمن الرحیم حامدًا مصلیا
مولوی ثناء اللہ صاحب! آپ کا رقعہ حضرت اقدس امام الزماں مسیح موعود مہدی مسعود