دوسری یہ شرط ہوگی۔ کہ آپ زبانی بولنے کے ہرگز مجاز نہیں ہوں گے صرف آپ ایک سطر یا دو سطر تحریر دیدیں۔ کہ میرا یہ اعتراض ہے۔ پھر آپ کو عین مجلس میں مفصل جواب سنایا جائے گا۔ اعتراض کے لیے لمبا لکھنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ ایک سطر یا دو سطر کافی ہیں۔
تیسری یہ شرط ہوگی کہ آپ ایک دن میں صرف ایک ہی اعتراض پیش کریں گے کیونکہ آپ اطلاع دے کر نہیں آئے۔ چوروں کی طرح آگئے اور ہم ان دنوں بباعث کم فرصتی اور کام طبع کتاب کے تین گھنٹے سے زیادہ وقت نہیں خرچ کرسکتے۔
یاد رہے کہ یہ ہرگز نہیں ہوگا کہ عوام کالانعام کے رو برو …… آپ وعظ کی طرح لمبی گفتگو شروع کریں۔ بلکہ آپ نے بالکل منہ بند رکھنا ہوگا۔ جیسے صم و بکم۔ یہ اس لیے کہ تا گفتگو مباحثہ کے رنگ میں نہ ہو جائے اول صرف ایک پیشگوئی کی نسبت سوال کریں۔ تین گھنٹہ تک میں اس کا جواب دے سکتا ہوں۔ اور ایک ایک گھنٹہ کے بعد آپ کو متنبہ کیا جائے گا۔ اگر ابھی تسلی نہیں ہوئی ہے۔ تو اور لکھ کر پیش کرو۔ آپ کا کام نہیں ہوگا۔ کہ اس کو سنا دیں۔ ہم خود پڑھ لیں گے۔ مگر چاہیے کہ دو تین سطر سے زیادہ نہ ہو۔ اس طرز میں آپ کا کچھ حرج نہیں ہے۔ کیونکہ آپ تو شبہات دور کرانے آئے ہیں۔ یہ طریق شبہات دور کرانے کا بہت عمدہ ہے۔ بآواز بلند لوگوں کو سنا دوں گا۔ کہ اس پیشگوئی کی نسبت مولوی ثناء اللہ صاحب کے دل میں یہ وسوسہ پیدا ہوا ہے۔ اگر یہ چاہو۔ کہ بحث کے رنگ میں آپ کو موقع دیا جائے۔ تو یہ ہرگز نہیں ہوگا۔
چودھویں جنوری ۱۹۰۳ء تک میں اس جگہ ہوں۔ بعد میں ۱۵ جنوری ۱۹۰۳ء کو ایک مقدمہ پر جہلم جائوں گا۔ سو اگرچہ بہت کم فرصتی ہے۔ لیکن چودھویں جنوری ۱۹۰۳ء تک تین گھنٹہ تک آپ کے لیے خرچ کرسکتا ہوں اگر آپ لوگ نیک نیتی سے کام لیں۔ تو یہ ایک ایسا طریق ہے کہ اس سے آپ کو فائدہ ہوگا۔ ورنہ ہمارا اور آپ لوگوں کا آسمان پر مقدمہ ہے۔ خود خدا تعالیٰ فیصلہ کردے گا۔
سو چ کر دیکھ لو۔ کہ یہ بہتر ہوگا۔ کہ آپ نے بذریعہ تحریر و سطر دو سطر سے زیادہ نہ ہو۔ ایک ایک گھنٹہ کے بعد اپنا شبہ پیش کرتے جائیں گے اور میں وسوسہ دور کرتا جائوں گا۔ ایسا ہی صدہا آدمی آتے ہیں اور وساوس دور کراتے ہیں۔ اور کچھ غرض نہیں۔ لیکن وہ لوگ جو خدا سے نہیں ڈرتے۔ ان کی تو نیتیں ہی اور ہوتی ہیں۔ بالآخر اس غرض کے لیے کہ اب آپ شرافت اور ایمان رکھتے ہیں۔ تو قادیاں سے بغیر تصفیہ کے خالی نہ جائیں۔
دو قسموں کا ذکر کرتا ہوں۔ اول چونکہ میں انجام آتھم میں خدا تعالیٰ سے قطعی عہد کر چکا