اسی بیان کے متعلق ایک دو پیشگوئیاں بھی جڑ دی ہیں۔ چنانچہ لکھتے ہیں: ’’واضح رہے کہ مولوی ثناء اللہ کے ذریعے سے عنقریب تین نشان میرے ظاہر ہوں گے۔
۱… وہ قادیاں میں تمام پیشگوئیوں کی پڑتال کے لیے میرے پاس ہرگز نہیں آئیں گے۔ اور سچی پیشگوئیوں کی اپنے قلم سے تصدیق کرنا ان کے لیے موت ہوگی۔
۲… اگر اس چیلنج پر وہ مستعد ہوئے کہ کاذب صادق سے پہلے مر جائیں گے تو ضرور وہ پہلے مریں گے۔
۳… اور سب سے پہلے اس اردو مضمون اور عربی قصیدہ کے مقابلہ سے عاجز رہ کر جلد تر ان کی رو سیاہی ثابت ہو جائے گی۔ (اعجاز احمدی ص۳۷، خزائن ج۱۹ ص۱۴۸)
حوالدارصاحب… اجی حضرت! کیا آپ مرزا صاحب کے وعدوں سے واقف نہیں۔ اگر وہ ایسے وعدہ وفا ہوتے۔ تو یہ جائیداد عمرانات اور زیورات اور حلوائے تر اور قورما اور پلائو کہاں سے اڑاتے۔ آپ نے سنا نہیں کہ بخیل نے کسی شخص سے کہا کہ ہمارے گھر ہمارے دادا کے وقت کا اچار ہے۔
شخص… ارے میاں ہمیں بھی دکھانا۔ کہ اس کا کیسا ذائقہ ہے۔
بخیل… جو اس طرح دکھاتے تو وہ کیونکر رہتا؟
سو حضرت! ہاتھی کے دانت کھانے کے اور ہیں دکھانے کے اور ہیں۔ مرزا صاحب ایسی کچی گولیاں نہیں کھیلے۔ جو کسی کے دم میں آ جائیں۔ اچھوں اچھوں کو اس نے دم دیا ہے۔ کسی کے قابو میں نہیں آتے۔ لاکھوں انعام کے اشتہار شائع ہو چکے۔ کسی کو کوئی پیسہ ملا؟ سینکڑوں آدمی مناظرہ کو بلائے گئے۔ کسی سے کسی بات کا فیصلہ ہوا۔ آخر کو للو نکل گئے۔ اور سب دیکھتے کے دیکھتے ہی رہے۔
اس عرصہ میں سورج نے منہ دکھایا۔ دھوپ کی گرمی سے ذرا ہاتھ پائوں کھلے۔ یکہ معہ مسافران آگے کو روانہ ہوا۔ کبھی ٹیلہ پر یکہ چڑھا اور کبھی گڑھے میں دھڑام کرکے گرا۔
مجھ ناتواں کی چال ہے جوں مرغ بسمل کی تڑپ
ہر ہر قدم پر ہے گماں یہ رہ گیا وہ رہ گیا
غرض بصد حیرانی صبح سے چل کر قریب عصر قادیاں کی صورت دیکھے ہو ہو جی منارۃ المسیح کی زیارت نصیب ہوئی۔ خدا کا شکر بجالائے۔ ایک مسجد میں قیام کیا۔ مرزا صاحب کو بذریعہ رقعہ اطلاع دی۔