گناہ کیوں عذاب میں پھنسایا۔
دوسرا… یہ تو یکہ میں منہ سر لپیٹے ہاتھ پائوں چھپائے بیٹھے ہیں چلو یہ پاس گائوں ہے۔ وہاں چل کر آگ اور لکڑیاں لائیں۔ سینک کر ہاتھ پائوں کھولیں۔
تیسرا… یہ بزدلی خوب نہیں۔ اگر کوئی معرکہ آرائی ہو۔ تو تم کیا کرو۔
چوتھا… حوالدار صاحب! ان میں سے ایک آدمی کو ضرور بھیج دینا چاہیے۔ جب تک دھوپ نکلے آگ جلا کر سنیکیں۔ جب دھوپ نکلے گی۔ تو یکہ کو گھوڑا کھینچے گا۔
حوالدار صاحب…اچھا تم سے ایک آدمی جائو۔ مولوی صاحب! آپ حقہ تو نہیں پیتے؟
مولوی صاحب… نہیں صاحب! میں حقہ تو نہیں پیتا۔ مگر آگ تو ضرور منگانی چاہیے۔
حوالدار صاحب… حضرت مولانا صاحب! اس موسم میں سفر! ہم لوگ تو ملازم پیٹ کی خاطر مارے مارے پھرتے ہیں۔ آپ کو ایسی کیا ضرورت پیش آئی۔ جو اس قدر تکلیف شاقہ کی روا دار ہوتے۔
مولوی صاحب… کیا کہیں تم مرزا کو جانتے ہوگے؟
حوالدار صاحب… واہ صاحب! آپ نے مرزا کے جاننے کی بھی ایک ہی کہی وہ تو شیطان سے زیادہ مشہور ہے۔ اسے کون نہیں جانتا۔
خوب! یہ مولانا صاحب تو ہمارے مخدوم مکرم و معظم حضرت مولانا حضرت ثناء اللہ صاحب امرتسری ہیں۔ یہ اس وقت یہاں کہاں؟
مولوی صاحب… میں نے قادیاں میں جانا ہے۔ مرزا قادیانی نے ایک رسالہ اعجاز احمدی چھاپا ہے جس میں ہم کو مخاطب کرکے لکھا ہے۔ اگر یہ (مولوی ثناء اللہ) سچے ہیں تو قادیاں میں آ کر کسی پیشگوئی کو جھوٹی ثابت کریں تو ہر ایک پیشگوئی کے لیے ایک سو روپیہ انعام دیا جائے گا۔ اور آمد و رفت کا کرایہ علیحدہ (ص ۱۱، خزائن ج۱۹ ص۱۱۷،۱۱۸)
مولوی ثناء اللہ نے کہا تھا۔ کہ سب پیشگوئیاں جھوٹی نکلیں۔ اس لیے ہم آپ کو مدعو کرتے ہیں۔ اور خدا کی قسم دیتے ہیں۔ کہ وہ اس تحقیق کے لیے قادیاں میں آئیں۔ رسالہ نزول المسیح میں میں نے ڈیڑھ سو پیشگوئی لکھی ہے۔ تو گویا جھوٹ ہونے میں پندرہ ہزار روپیہ مولوی ثناء اللہ صاحب لے جائیں گے۔ اس وقت ایک لاکھ سے زیادہ میری جماعت ہے۔ پس اگر میں مولوی صاحب کے لیے اپنے مریدوں سے ایک ایک روپیہ لوں گا۔ تب بھی ایک لاکھ روپیہ ہو جائے گا۔ وہ سب ان کی نذر ہوگا۔ (ص۲۳، خزائن ج۱۹ ص۱۳۲)