رہین دوں۔ تب فک الرہن کرالوں، ورنہ بعد انقصائے میعاد بالا یعنی اکتیس سال کے تیسویں سال میں مرہونہ بالا ان ہی روپیوں پر بیع بالوفا ہو جائے گا اور مجھے دعویٰ ملکیت کا نہیں رہے گا۔ قبضہ اس کا آج سے کرا دیا ہے۔ داخل خارج کرا دوں گا اور منافع مرہونہ بالا کی قائمی کی جو ثمرہ اس وقت باغ میں ہے اس کی بھی مرتہنہ حق ہے اور بصورت ظہور تنازعہ کے میں ذمہ دار ہوں اور سطر تین میں نصف مبلغ و رقم بیس ہزار روپے کے آگے رقم دو سو ساٹھ کو قلمزن کرکے پانچ سو لکھا ہے۔ جو صحیح ہے اور جو درختان خشک ہوں وہ بھی مرتہنہ کا حق ہوگا اور درختان غیر ثمرہ یا خشک شدہ کو مرتہنہ واسطے ہر ضرورت وآلات کشا ورزی کے استعمال کرسکتی ہیں۔ بنا براں رہن نامہ لکھ دیا ہے کہ سندہو۔ المرقوم ۲۵؍جون ۱۸۹۸ء بقلم قاضی فیض احمد نمبر۹۴۹، العبد مرزا غلام احمد بقلم خود گواہ شد مقبلان ولد حکیم کرم دین صاحب بقلم خود گواہ شد نبی بخش نمبردار بقلم خود بٹالہ حال قادیان۔
اسٹام بک مکرر دو قطعہ
حسب درخواست جناب مرزا غلام احمد صاحب خلف مرزا غلام مرتضیٰ صاحب مرحوم آج واقعہ ۲۵؍جون ۱۸۹۸ء یوم شنبہ وقت ۷ بجے بمقام قادیاں تحصیل بٹالہ ضلع گورداسپور آیا اور یہ دستاویز صاحب موصوف نے بغرض رجسٹری پیش کی۔ العبد مرزاغلام احمد قادیانی راہن مرزاغلام احمد بقلم خود ۲۵؍جون ۱۸۹۸ء دستخط احمد بخش رجسٹرار۔
اس رجسٹری پر ملا محمد بخش قاری نے اپنے ایک اشتہار میں مندرجہ ذیل ریمارک کیا ہے۔
رجسٹری مذکورہ بالا پر ہمارا منصفانہ ریمارک
اگر مرزا صاحب کو اسپ وزن و شمشیر وفا دار کی دید کی خبر ہوتی۔ تو ہرگز اپنی بیوی کے نام رجسٹری نہ کرانے۔ مرزا صاحب نے خواہ کتنا ہی لطائف الحیل طمع دنیوی سے نصرت جہاں بیگم کو راضی کرنے کی کوشش کی جب مرزا صاحب کو کچھ روپیہ وغیرہ کی ضرورت پیش آبنی۔ تو اس عفیفہ نے ایک چھلہ تک نہیں دیا۔ کہ مرزا صاحب کے وقت بیوقت کام آتا۔ بلکہ اس سے زیورات کے عوض میں جناب سے تمام باغات زمین وغیرہ رہن گروی رکھ لی۔ اور رجسٹری کرالی۔ کیا یہ سب باتیں اس کی فرمانبرداری کی ہیں۔ ہرگز نہیں۔ اس نے ایسے شخص … کا ذرا بھی اعتبار نہیں کیا۔ پس جب گھر کا یہ حال ہو رہا ہے۔ تو دوسروں پر کیا شکایت۔
اوّل… ہم پوچھتے ہیں کہ مرزا صاحب نے جو زیورات مالیتی پانچ ہزار روپیہ کے عوض باغات و