آرزئوے دل تو ظاہر نہیں کی۔
مجھ کو صدقہ کر اگر ہے بد مزہ تیرا مزاج
یہ ادھر صدقہ دیا تو نے ادھر اچھا ہوا
بیوی… پھر وہی میں کہتی ہوں میری طبیعت اچھی نہیں۔ صبح سے درد سر نے ہلکان کر رکھا تھا۔ اب مر مر کے آنکھ لگی تھی۔ جگا دیا پھر اس پر بھی سکوت نہیں۔
میاں…
صندلی رنگوں سے مانا دل ملا
درد سر کی کس کے ماتھے جائے گی
بیوی… چہ خوش، چرانبا شد۔ آپ صندلی رنگ بھی ہیں۔
ہے زمانہ سے جدا روز و شب سوختگاں
شام کہتے ہو جسے ہے سحر پروانہ
میاں… کچھ چھپ کر۔ کیا تمہارے نزدیک صندلی رنگ نہیں۔ اس لال داڑھی کو دیکھ کر کہتی ہوگی۔ ورنہ جس کو اللہ وجیہہ کہے۔
بیوی… تو کسی کو کیا؟
میاں… کیوں؟ تم کو کیوں نہیں۔ تمہارا بھی تو فخر پنجاب امام الزماں مہدی دوراں۔ مسیح جہاں کی چاہتی بیوی ہونے کے سبب (حسرت کے لجہ میں)۔
اے موجد عیش و شادمانی پھر آ
اے باعثِ لطفِ زندگانی پھر آ
بن تیری ہول میں دیدۂ خوبان میں ذلیل
پھر آ تو اب اے میری جوانی پھر آبیوی… لے چلو ہٹو بھی۔ مجھے یہ روکھی محبت اور خالی خولی فخر نہیں بھاتا۔ وہ وعدہائے شیریں سب گئے گزرے ہوئے۔ اب ہمارے واسطے صرف فخر ہی فخر رہ گیا ہے۔
میاں… وہ ہم نے کون سا وعدہ کیا جو فا نہیں کیا۔ اہاہا! خوب یاد آیا بس یہی بات ہے۔ جس کے پیچھے منہ سو جایا ہے۔ صاف کیوں نہیں کہتیں۔ ذرا سی بات کی خاطر خود رنج ہونا دوسرے کا دل دکھانا۔ کل لو۔ انشاء اللہ سب سے اول یہی کام کیا جائے تو سہی۔ بیوی خوش ہو کر اٹھ بیٹھیں۔ اور عیش و طرب میں رات بسر ہوئی۔