پتی، ایک خادمہ آہستہ آہستہ پنکھا ہلا رہی اور کہہ رہی ہے۔
چنپٹی او مہروش تجھ کو نہ دہانی چاہیے
چاند مکھڑا ہے دوپٹہ آسمانی چاہیے
آدمی کے پائوں کی چاپ ہوئی۔ خادمہ نے مڑ کے دیکھا۔ اور ادب سے سلام کرکے علیحدہ۔
آنے والا… ہیں یہ کیا! آج شام سے ہی ابھی ابھی ۹ بجے ہیں اور ۸ بجے کے قریب آفتاب غروب۔
خادمہ… ہاں نصیب اعداء کچھ طبیعت ناساز ہے۔
شخص… گھبراہٹ کے لہجہ میں خیر باشد۔
خادمہ… کچھ درد سر کی شکایت تھی۔ ابھی ابھی آنکھ لگی ہے فرماتی تھیں کہ جگانا نہیں۔
شخص… تحت پوش پر (جو چارپائی کے پاس بچھا ہوا تھا) تکیہ کو سہارا دے کر آخر جگانا پڑے گا۔ حنائی داڑھی پر (جو اس نازنین کے دستِ ناز کی سے رنگ میں ایک غوطہ زیادہ کھائے ہوئے تھی) ہاتھ پھیر کر۔ دریافت تو کیا جائے طبیعت کی کیا حالت ہے۔
خادمہ… حضور کو اختیار ہے۔ مجھ کو جیسا حکم تھا۔ عرض کردیا۔
میاں… (شخص) چارپائی کے قریب آ کر اور منہ سے دوپٹہ اٹھا کر دیکھنے لگے۔ ان ناز کی رخساروں پر مہندی کے رنگے ہوئے سخت سخت بال جو لگے۔ آنکھ کھل گئی۔
نازنین… انگڑائی لے کر ہائے کمبخت رو رو کے آنکھ لگی تھی۔ جگا دیا۔ کیا اس مردار نے نہیں کہا تھا۔ طبیعت اچھی نہیں۔
میاں… نہیں اس نے تو کہہ دیا تھا اس غریب کی تو خطا نہیں۔ یہ تو اس دل ناصبور کا قصور ہے۔
نہ تمہیں رحم کی عادت نہ اسے صبر کی خو
تم بھی مجبور ہو بندہ کا بھی لاچار ہے دلبیوی… تمہاری ہر وقت یہی باتیں ہیں۔ خوش طبعی اور دل لگی سے کام دوسرے کی طبیعت بھی دیکھا کرو۔
نہ چھیڑ اے نگہتِ بادِ صبا چل راہ لگ اپنی
تجھے اٹھکیلیاں سوجھی ہیں ہم بیزار بیٹھے ہیں
میاں… کیوں خیر تو ہے۔ طبیعت کیا حال ہے؟ میں بھی تو یہی دریافت کرتا ہوں۔ کوئی آرزئوے