یاد نہیں دیکھ رہے تھے۔ قریب ایک ماہ کے ہوا ہے کہ میں قادیاں سے روانہ ہو کر امرتسر مرزا صاحب کے پاس سے ڈاکٹر صاحب کے پاس گیا تھا۔ مولوی نور الدین کی طرف خط بھیجنے سے یہ مطلب تھا کہ ان کو معلوم ہو جائے کہ میں بیاس میں ہوں۔ جب قادیاں سے امرتسرگیا تھا۔ ۴آنے کرایہ دیا تھا اور قادیاں میں ٹوکری اٹھانے کی اجرت میں ۱۲آنے مرزا صاحب نے مجھے دئیے تھے۔ میں نے عبد اللہ آتھم کی بابت سنا ہے دیکھا نہیں۔ اس پر حملے کیے جانے کی نسبت مجھے کوئی علم نہیں ہے۔ کہ کب حملے ہوئے اور کیا کیا حملے ہوئے اور کس نے حملے کیے۔ جب میں پہلے ڈاکٹر صاحب کے پاس گیا۔ تو میرا ارادہ مارنے کا تھا۔ بعد میں ارادہ بدل گیا۔ مجھے لقمان نے مرزا صاحب کے پاس نہیں بھیجا تھا۔ اور نہ ڈاکٹر صاحب کے پاس بھیجا ہے۔ ہمارے خاندان میں کوئی رنج مولوی برہان الدین کے مرزا صاحب کا مرید ہونے سے نہیں ہے۔ لقمان اس وقت جہلم میں ہے اور برہان الدین کا پتہ نہیں کہ کہاں ہے؟ وغیرہ ……
بعد بیان کے عرض کیا۔ چونکہ میں نے صاف صاف حالات بیان کر دئیے ہیں۔ مجھ کو اندیشہ جان ہے۔
ڈاکٹر صاحب… ہم اس کو اپنی حفاظت میں رکھنا چاہتے ہیں چنانچہ گواہ کو اجازت ڈاکٹر صاحب کے پاس رہنے کی دی گئی۔
اور گواہان کے اظہار اور خرچ فریقین کی طرف سے ہوئے۔ صاحب ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ نے صاحب ڈسٹرکٹ سپرنٹنڈنٹ بہادر کو اس مقدمہ کی تفتیش کے لیے کہا اور عبد المجید یا عبد الحمید گواہ استغاثہ کو پولیس میں بھیجا گیا۔ وہاں اپنے بیان کو بالکل بدل دیا۔ اور جو بیان عدالت میں لکھایا تھا۔ محض کہانی اور غلط بیان کیا۔ اگر کل کارروائی بلفظہٖ درج کی جائے تو بذاتہ ایک کتاب ہو جاتی ہے۔
عدالت نے کل کارروائی مقدمہ اور وجوہات کو ججمنٹ میں درج کرکے حصہ دیا۔
یہ ظاہر ہے کہ یہ پیشگوئیاں ڈیلفک الہاموں کی طرح دو پہلو رکھتی ہیں۔ اور ایسے میں فائدہ ہے کہ وہ ایسی ہوں۔ مرزا صاحب کچھ مطلب بیان کرتے ہیں اور ڈاکٹر صاحب کچھ اور۔ اس صورت میں اس امر کا ثابت کرنا ناممکن ہے۔ کہ ڈاکٹر کلارک کے معنی ٹھیک ہوں۔ مرزا صاحب کہتے ہیں کہ انہوں نے ڈاکٹر کلارک کی نسبت کوئی پیشگوئی نہیں کی۔ اور جس قدر مطبوعہ شہادت پیش کی گئی ہے۔ ہم منجملہ ان کے کسی میں بھی کوئی صاف اور صریح امر نہیں پاتے۔ جس سے مرزا صاحب کے بیان کی تردید ہوتی ہو۔ غلام احمد نے اپنے اظہار میں بیان کیا ہے۔ کہ ان کو