ان حملات کا بھی علم نہیں ہے۔ جو آتھم کی جان پر کیے گئے۔
مگر کہا کہ لیکھرام کی نسبت اس کو علم تھا کہ وہ مر جائے گا۔ اور نیز اس نے دن اور گھنٹہ کی پیش از وقت اطلاع دے دی تھی۔ جہاں تک ڈاکٹر کلارک کے مقدمہ سے تعلق ہے۔ ہم کوئی وجہ نہیں دیکھتے کہ غلام احمد سے حفظ امن کے لیے ضمانت لی جائے۔ یا یہ کہ مقدمہ پولیس سپرد کیا جائے۔ لہٰذا وہ بری کیے جاتے ہیں۔ لیکن ہم اس موقعہ پر مرزا غلام احمد کو بذریعہ تحریری نوٹس کے جس کو انہوں نے خود پڑھ لیا۔ اور اس پر دستخط کر دئیے ہیں۔ باضابطہ طور سے متنبہ کرتے ہیں۔ کہ ان مطبوعہ دستاویزات سے جو شہادت میں پیش ہوئی ہیں۔ یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اس نے اشتعال اور غصہ دلانے والے رسالے شائع کیے ہیں۔ جن سے ان لوگوں کی ایذاء مقصود ہے۔ جن کے مذہبی خیالات اس کے مذہبی خیالات سے مختلف ہیں جو اثر اس کی باتوں سے اس کے بے علم مریدوں پر ہوگا۔ اس کی ذمہ داری ان پر ہوگی۔ اور ہم انہیں متنبہ کرتے ہیں۔ کہ جب تک وہ زیادہ میانہ روی کو اختیار نہ کریں۔ وہ قانون کی رو سے بچ نہیں سکتے۔ بلکہ ان کی زد کے اندر آ جاتے ہیں؟ دستخط ایچ انگلش ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ گورداسپور 23.8.97
(کتاب البریۃ ص۲۵۸تا۲۶۱، خزائن ج۱۳ ص۲۹۶تا۳۰۲)
الحکم اور شحنہ ہند کی نوک جھوک
(الحکم قادیان ۱۰؍مارچ ۱۹۰۳ئ) کلمات طیبات امام آخر الزماں۔ واقفی بھی ہمارے پر چلتے ہیں۔ اور اپنی جگہ عیسائیوں کی طرح امام حسینؓ کے خون کو اپنی نجات کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ ان کے نزدیک اگر عمال کی کوئی ضرورت ہے۔ تو فقط اتنی کہ ان کے مصائب کو یاد کرکے آنکھوں سے آنسو گرا لیے یا کچھ سینہ کوبی کرلے۔ ساری اعمال حسنہ کی روح یہی اشکباری اور سینہ کوبی ہے مگر میں نہیں سمجھتا کہ اس کو نجات سے کیا تعلق؟
شحنہ ہند… لیکن مرزا جی بھی ماشاء اللہ عیسائیوں اور شیعہ سے کسی بات میں کم نہیں کیا معنے کہ اسلام میں نجات صرف خدائے وحدہ لا شریک کی توحید اور آنحضرتؐ کی رسالت اور قرآن مجید اور اس کے احکام پر ایمان لانے سے حاصل ہوتی ہے۔ توحید تو یوں رخصت ہوئی کہ مرزا جی نے اپنے کو خدا کا بمنزلہ ولد (متنبی یا لے پالک) قرار دیا۔ اور ان پر ’’اَنْتَ مِنِّی وَ اَنَا منک‘‘ الہام ہوا۔آنحضرتﷺ کی رسالت سے جن کی صفت ختم نبوت سے۔ یوں انحراف ہوا۔ کہ اپنے کو بروزی نبی بتایا۔ قرآن مجید سے یوں ارتداد ہوا۔ کہ آیت تو ولکن رسول اﷲ وخاتم النبیین کو توڑا دوئم اس کی آیات کا نزول تیرہ سو برس کے بعد اپنی شان میں بتایا۔ اور غلام احمد