کے چالیس روپیہ چوری کرکے شہوت پرستی میں خراب کیے تھے۔ رات دن وہ بدمستوں اور عیاشوں اور رنڈی بازوں میں پھرتا رہتا تھا پھر ہم نے اس کے عیسائی ہونے کے متلاشی ہونے کی بابت گجرات سے دریافت کیا۔ بذات خود ہم نے دریافت کیا تھا۔ معلوم ہوا کہ وہ گجرات کے ضلع سونگ کے ریلیف ورکس پر میٹ رہا تھا۔ اور روز شادی کی بابت آ کر پادری صاحب یا عیسائیوں کو دق کرتا تھا۔ اور اپنی بہن کے پاس جو کہوا میں رہتی تھی۔ سکونت رکھتا تھا۔ اور کہا کہ ایک روز میں انجیل پڑھتا تھا۔ ایک دن بہنوئی نے نکال دیا۔ اور پادری صاحب کے پاس گجرات آیا۔ ہماری دریافت کا نتیجہ یہ تھا۔ کہ وہ لڑکا نہایت بد چلن اور مشکوک سا آدمی گجرات میں تھا۔ اور اس لیے زنا کاری کی علت میں گجرات سے مشن والوں نے نکال دیا تھا۔ کسی صورت میں اسے عیسائی نہیں سمجھا جاتا تھا۔ بلکہ نہایت برا محمدی سمجھا جاتا تھا۔ گجرات میں اس کی ایک دوست بازاری عورت تھی۔ ایک شخص میراں بخش جولاہا تھا۔ جو مرزا صاحب کا سخت عقیدت مند مرید ہے۔ جب ہم نے یہ باتیں سنیں۔ تو ہمارا اشتباہ مرزا صاحب کی نسبت اور زیادہ ہوا۔ کہ وہ قادیاں میں ٹوکری اٹھاتا رہا تھا۔ اور آخر کار گالیاں دے کر چلا آیا ہے۔ جس کا اصل مدعا یہ ہے کہ اس امر کا اشتباہ نہ ہو۔ کہ اس نوجوان کی مرزا صاحب سے سازش ہے۔ اور مرزا صاحب سے جو دریافت کیا گیا۔ تو جو معلوم تھا کہہ دیا تھا۔ ہم نے جرائم کے ارتکاب کے اصول کا جو قانون ہے اس کا مطالعہ کیا ہے۔ اور ہم کو معلوم ہے کہ بموجب اس علم کے جو شخص زنا پر آمادہ ہو۔ اس کو قتل پر آمادہ کرنا آسان ہے۔ نیز ایسے اشخاص جن کو حورانِ بہشت کی تمنا ہو۔ اور ایسے نوجوان جن کو زنا کی لت ہو۔ قتل کرنے پر آمادہ ہو جاتے ہیں۔ یعنی ایسے شخص کو حورانِ بہشت کا خیال بڑھ کر لقمہ ہے۔ جاں جائے تو چلی جائے۔ حورانِ بہشت تو ملیں گی۔ نیز ہم کو یہ بھی علم ہوا کہ وہ نوجوان ایک نکمے مسلمان خاندان جہلمی سے تھا۔ جن کو مرنے کا ذرا خوف نہیں ہے۔ اور اگر وہ بطور مرید مرزا صاحب مرتا۔ تو مرزا صاحب کی عزت تھی اور اگر وہ بطورِ مسلمان کے مرتا۔ تو شہید کہلاتا اور اگر یوں مر جاتا تو اس کی جائیداد سے اس کے چچوں کو فائدہ تھا۔ ان باتوں کو مدنظر رکھ کر ہم بیاس گئے۔ اور رو بروئے گواہاں کے ہم نے اس نوجوان سے گفتگو کی۔ اور میرے وعدہ پر کہ ہم تمہارا برا نہیں چاہتے۔ اس لڑکے نے پانچ کس گواہاں کے رو بروئے اقرار کیا۔ اور خود لکھ کر دیا حروف H جو ہمارے روبروئے اس نے لکھا تھا۔ اور پھر رو بروئے صاحب ڈپٹی کمشنر بہادر امرتسر تصدیق بھی کرا دیا تھا۔ علاوہ اس اقرار نامہ کے اس نوجوان نے خود مجھے کہا کہ میں بایمائے مرزا صاحب جان بوجھ کر ان کو گالیاں دے کر آیا تھا۔ اور یہ بھی اس نے ہم کو کہا کہ ریل کا کریہ بطور مزدوری ٹوکری اٹھانے کے مرزا صاحب نے دیا