صاحب کو خط لکھیں۔ کہ یہ شخص عیسائی ہونا چاہتا ہے کل کو یہ نہ کہیں کہ تم ان کے چور ہو۔ اس نے کہا کہ نہیں میں خود خط لکھتا ہوں اور اس نے خط لکھ کر بیرنگ ڈاک میں ڈالا۔ اور مجھے خط کے لکھنے سے منع کیا تھا۔ جب تک میرے بپتسمہ کا وقت ہو۔ وہ ہمارے پاس ہے ہم پیش کریں گے۔ پھر ہم نے اس نوجوان لڑکے کی بابت دریافت کرنا شروع کیا۔ ایک آدمی بٹالہ میں دریافت کے واسطے بھیجا گیا۔ اس آدمی کا نام عبد الرحیم ہے۔ اس نے بٹالہ کے متعلق حالات عبد المجید کے محض جھوٹے پائے۔ ذرا بھی اس میں سچ نہ تھا۔ تب مولوی عبد الرحیم سیدھا قادیاں میں مرزا صاحب کے پاس پہنچا۔ اور مکان پر پہنچ کر اس نے دریافت کیا۔ کہ آیا کوئی شخص عبد المجید نام یہاں پر ہے۔ ایک لڑکا وہاں تھا۔ اس نے کہا کہ ہاں تھا۔ مگر مرزا صاحب کو گالیاں دے کر چلا گیا ہے۔ پھر مولوی عبد الرحیم مرزا صاحب کے پاس گیا۔ اور دریافت پر کہا کہ میں عیسائی ہوں۔ اور عبد المجید کی بابت دریافت کیا۔ مرزا صاحب نے کہا وہ جھوٹا ہے پیدائشی مسلمان ہے۔ اور اس کاپیدائشی نام عبد المجید ہے۔ اور وہ مولوی برہان الدین جہلمی کا بھتیجا ہے۔ وہ راولپنڈی میں عیسائی ہوا تھا۔ اور یہاں قادیان میں آ کر پھر مسلمان ہوگیا تھا۔ اور کچھ عرصہ محنت ٹوکری اٹھا کرتا رہا اور قریباً سات آٹھ یوم سے یہاں سے چلا گیا ہے اور یہ عرصہ اس سے مطابق ہے۔ جب وہ ہماری کوٹھی پر آیا تھا۔ اور آخر کار مرزا صاحب نے کہا۔ اس کی اچھی طرح خاطر اور مدارت کرو۔ اور خوراک پوشاک عمدہ دو وہ تمہارے پاس رہے گا۔ پھر ہم نے جہلم سے دریافت کیا۔ وہاں سے ہم کو معلوم ہوا کہ اس نوجوان آدمی کا نام عبد المجید نہیں ہے اور اس کا باپ مر گیا ہے۔ اس کی ماں نے اس کے ایک چچا سے نکاح کرلیا ہے اور دوسرا چچا اور خاندان کا ممبر برہان الدین ہے۔ جو مولوی برہان الدین غازی کے نام سے مشہور ہے۔ وہ قوم کے گھگڑ ہیں۔ برہان الدین معہ کل خاندان کے نہایت ہی پکے محمدیؐ ہیں۔ برہان الدین مجاہدین سے ہے۔ میرا مطلب ہے کہ جو مجاہدین سرحد پر ہیں۔ ان سے اس کا واسطہ تعلق رہا ہے۔ اور وہ بڑا بے دھڑک ہے۔ اگرچہ اب عمر رسیدہ ہے۔ جہاں تک سنا ہے، نیک معاش ضرور ہے۔ اور نسبت سب خاندان کے برہان الدین مرزا صاحب پر جاں نثار ہیں۔ نوجوان آدمی کی کچھ حقیقت نہیں جانتا قریباً سوبیگہ اراضی ہے۔ اور کچھ نقد بھی ہے جو بوقت وفات اس کے والد کے اس کے چچوں کے قبضہ میں آیا۔ یہ تحقیقات محمد یوسف خاں نے کی تھی۔ جو مرزا صاحب کا سابق مرید تھا اور خود بھی مجاہدوں کی بو رکھتا تھا۔ اور برہان الدین کا دوست قدیمی تھا۔ اس کا خط ہمارے پاس ہے۔ جو پیش کیا جاتا ہے مکرر ضرورت پیش کرنے کی نہیں۔ اس نوجوان کو کبھی بپتسمہ نہیں دیا گیا تھا۔ اور وہ نہایت بری اور ناشائستہ زندگی بسر کرتا تھا۔ اور اس نے اپنے چچا