۔ اور اس نے خیال کیا۔ کہ مرزا صاحب اچھے آدمی نہیں ہیں اور شر انگیز ہیں۔ سیدھا قادیاں سے آیا ہوں اور عام طور پر علانیہ میں نے مرزا صاحب کو گالیاں دی ہیں۔ جب وہاں سے چلا تھا۔ میں اپنے ساتھ کچھ نہیں لایا خداوند یسوع کا قول ہے کہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ پیچھے چلو۔ میں کچھ اور نہیں چاہتا۔ صرف بپتسمہ لینا چاہتا ہوں۔ اپنی معاش ٹوکری اٹھا کر قلی گری کرکے بسر کروں گا۔ ہم کو کوئی کافی وجہ اس نے نہ بتلائی کہ کیوں آیا ہے کیونکہ بٹالہ اور گوردا سپور میں مشنری صاحب موجود ہیں۔ اور نہ اس نے کوئی خاص وجہ بتلائی۔ کہ وہ کیوں خاص کر میرے پاس آیا ہے۔ جبکہ اور بھی مشنری صاحب موجود ہیں۔ اس نے صرف یہ کہا کہ اتفاقیہ ایک شخص کے آپ کی کوٹھی بتلانے پر آیا ہوں۔ جب ہم نے اس سے پوچھا کہ تم نے کرایہ ریل کا کہاں سے لیا تو وہ بتلا نہ سکا۔ ان باتوں پر ہماری خاص توجہ غور کے واسطے ہوئی۔ اور غور طلب معاملہ ہم نے سمجھا اور یہ میرے دل میں گزرا کہ اس کے بیانات لیکھرام کے قاتل کے بیانات سے عجیب تشبیہ رکھتے ہیں پس ہم نے اس کی طرف خاص دھیان رکھا۔ پس اس سے گفتگو کرکے ہم نے قصد مذکور کیا۔ اس شخص نے کچھ واقفیت دین عیسوی بھی ظاہر کی ہم نے پوچھا کہ تم نے کہاں سے یہ واقفیت حاصل کی۔ اس نے بوتلوں کے صاف کرنے وغیرہ کا کام دیا۔ قریباً پانچ چھ یوم تک وہ اس جگہ رہا۔ اول قابل توجہ ہمیں یہ بات تھی کہ وہ مرزا صاحب کے حق میں بہت ہی برا بکتا تھا۔ دوم وہ بپتسمہ لینے کی از حد خواہش رکھتا تھا اور سوم بلاوجہ اور بلاطلبی ہماری کوٹھی پر آ کر گشت اور سیر اور ملاقات چاہتا تھا اور باوجودیکہ ۱۵؍سال کی عمر میں وہ محمدی ہوا تھا۔ اپنی گوت (برہمن) سے ناواقف تھا۔ اور نانکوں سے ناواقف تھا اور مختلف اشخاص سے اپنی نسبت کہانی بیان کی۔ مثلاً ایک شخص سے اس نے اپنے دوست کا نام ایشراس بجائے کر پارام بتلایا۔ بعد انقضائے پانچ روز ہم نے اپنے ہسپتال واقع بیاس پر اس کو بھیج دیا۔ وہاں بھی میرے طالب علم پڑھتے تھے۔ جاتے ہی اس نے ایک خط مولوی نور الدین صاحب کے نام جو مرزا صاحب کے داہنے ہاتھ کا فرشتہ ہے لکھا۔ یہ اسی شخص کی زبانی معلوم ہوا تھا کہ خط اس نے لکھا ہے۔ مطلب اس خط کا یہ تھا کہ میں عیسائی ہونے لگا ہوں آپ روک سکتے ہیں تو روک لیں۔ یہ مطلب بھی اس کی زبانی معلوم ہوا تھا۔ اور دیگر شہادت بھی تھی۔ باعث خط لکھنے کا یہ تھا کہ ہم نے اس کو کہا تھا کہ یہ بہتر ہوگا۔ کہ ہم مرزا