والے ہمارے پر ایمان نہیں لائیں گے تو مر جائیں گے۔
مرزا صاحب… نہیں یہ ہم نے نہیں کہا۔پادری صاحب… اس پیشگوئی میں لیکھرام کے مرنے کی بابت وہ لوگوں کو بلاتے ہیں۔ کہ مباہلہ کرو۔
مرزا صاحب… تسلیم کیا۔ گنگا بشن مولوی محمد حسین بٹالوی۔ رائے چند سنگھ پیشگوئی بابت لیکھرام کے مباہلہ کے واسطے بلانا تسلیم ہے۔
شیخ مہر علی کو دھمکی دی گئی۔ کہ اگر وہ بیعت نہ کریں۔ تو عذاب ان پر نازل ہوگا۔ تسلیم نہیں کیا۔
پیشگوئیاں مذکورہ بالا کا (دستی تحریر شدہ) کاغذ نمبرJ میں درج ہے جو عدالت میں داخل کیا گیا ہے۔ لیکھرام کے قتل کے بعد مخفی طور پر آگاہ کیا گیا کہ ہم کو خبردار رہنا چاہیے۔ مبادا مرزا صاحب نقصان پہنچائے۔ ایک اشتہار میں مرزا صاحب نے یہ لکھا تھا۔ کہ کچھ حصہ کفر کا مٹ گیا ہے۔ اور کچھ حصہ جلد مٹنے والا ہے۔ یہ فقرات جو ہیں۔ ان کی بابت میرا خیال ہے کہ جو حصہ کفر کا مٹ گیا۔ وہ لیکھرام کی بابت ہے۔ اور جو باقی ہے جو میری نسبت ہے۔ اور اس لیے میں نے سرکار میں اطلاع دی تھی۔ کہ اشتہار وغیرہ جو میرے پاس آتے ہیں۔ وہ ہمیشہ قادیاں سے آتے ہیں۔ حالانکہ میں نہ چندہ دیتا ہوں۔ اور نہ کوئی تعلق ہے بعد مناظرے کے ہماری خط و کتابت چند عرصہ تک رہی۔ اور پھر بعد ازاں ہر طرح سے ہم نے خط و کتابت وغیرہ کا مرزا صاحب سے قطع تعلق کر دیا۔ ۳ ماہ گزشتہ میں ہم نے کوئی اشتہار وغیرہ مرزا صاحب کی طرف سے وصول نہیں پایا۔ جس سے میرا یہ خیال ہے کہ وہ یہ سمجھے۔ کہ میری طرف سے وہ غافل ہیں۔ ۱۶ جولائی ۱۸۹۷ء کو ایک شخص جو ان عمر میرے پاس آیا۔ اور اس نے عیسائی ہونے کی درخواست کی۔ اس نے اپنا نام عبد المجید بتلایا۔ اور اس نے کہا میں جنم کا برہمن ہوں اور میرا ہندو نام رلیا رام ہے اور والد کا نام رام چند ہے۔ اور کھجوری دروازہ بٹالہ کا رہنے والا ہوں۔ سال کی عمر میں مرزا نے مجھے مسلمان کیا تھا۔ جس کو ۶ سال گزرے ہیں۔ وہ ایک ہندو دوست کی ترغیب سے مسلمان ہوا تھا۔ اور وہ دوست بھی اسی وقت مسلمان ہوگیا تھا۔ میرا دوست اوڑہ قوم کا تھا۔ اور کر پارام اس کا نام تھا۔ اب عبد العزیز ہے۔ اور بٹالہ میں کپوری دروازہ کے اندر تمباکو کی دوکان کرتا ہے۔ سات سال کے عرصہ میں مرزا صاحب کے یہاں میں طالب علم رہا۔ اور قرآن کی تعلیم پاتا رہا۔ حال میں جو مرزا صاحب کے دعاوی کی نسبت الہامات باطل ثابت ہوئے۔ تو اس کو یقین ہوا۔ کہ مرزا صاحب نبی نہیں ہیں۔