تھا۔ الوہیت میری رگوں اور پٹھوں میں سرایت کر گئی۔ اور میں بالکل اپنے آپ سے کھویا گیا۔ اور اللہ تعالیٰ نے میرے سب اعضاء اپنے کام میں لگائے۔ اور اس زور سے اپنے قبضہ میں کرلیا۔ کہ اس سے زیادہ ممکن نہیں۔ چنانچہ اس گرفت سے میں بالکل معدوم ہوگیا۔ اور میں اس وقت یقین کرتا تھا۔ کہ میرے اعضاء میرے نہیں ہیں۔ بلکہ اللہ تعالیٰ کے اعضاء ہیں۔ اور میں خیال کرتا تھا۔ کہ میں اپنی سارے وجود سے معدم اور اپنی ہوت سے قطعاً نکل چکا ہوں۔ اب کوئی شریک اور متاع روکنے والا نہیں رہا۔ خدا تعالیٰ میرے وجود میں داخل ہوگیا۔ اور میرا غضب اور حلم اور تلخی اور شیرینی اور حرکت اور مکان سب اس کا ہوگیا اور اس حالت میں یوں کہہ رہا تھا کہ ہم ایک نیا نظام اور نیا آسمان اور نئی زمین بنانا چاہتے ہیں۔ سو میں نے پہلے تو آسمان اور زمین کو اجمالی صورت میں پیدا کیا۔ جس میں کوئی ترتیب اور تفریق نہ تھی۔ پھر میں نے منشاء حق کے موافق ان کی ترتیب اور تفریق کی۔ اور میں دیکھتا تھا کہ میں اس کی خلق پر قادر ہوں اور میں نے آسماں وغیرہ کو پیدا کیا۔ اور کہا کہ انا زینا السماء الدنیا بمصابیح پھر میں نے کہا کہ اب ہم انسان کو مٹی کے خلاصہ سے پیدا کریں گے۔ پھر میری حالت کشف سے الہام کی طرف منتقل ہوگئی اور زباں پر جاری ہوا۔ اردت ان استخلف فخلقت آدم انا خلقنا الانسان فی احسن تقویم‘‘ (کتاب البریہ ص۷۸،۷۹، تذکرہ ص۱۹۲،۱۹۳، خزائن ج۵ ص۵۶۴،۵۶۵)
’’اب حضرت پادری صاحباں سوچیں۔ اور غور کریں اور ان الہامات کو یسوع مسیح کے الہامات سے مقابلہ کریں۔ اور پھر انصافاً گواہی دیں کیا یسوع کے وہ الہامات جن سے وہ اس کی خدائی نکالتے ہیں۔ ان الہامات سے بڑھ کر ہیں۔ کیا یہ سچ نہیں۔ اگر کسی کی خدائی ایسے الہامات اور کلمات سے نکل سکتی ہے۔ تو ان میرے الہامات سے نعوذ باللہ میری خدائی یسوع کی نسبت بدرجہ اولیٰ ثابت ہوسکتی ہے۔ اور ان سے بڑھ کر ہمارے سید و مولیٰ رسول اللہؐ کی خدائی ثابت ہوسکتی ہے۔ کیونکہ آپ کی وحی صرف یہی نہیں۔ کہ جس نے تجھ سے بیعت کی۔ اس نے خدا سے بیعت کی۔اور نہ صرف یہ کہ خدا تعالیٰ نے آپ کے ہاتھ کو اپنا ہاتھ قرار دیا ہے اور آپ کے ہر فعل کو اپنا فعل ٹھہرایا ہے۔ اور یہ کہ وما ینطق عن الھویٰ ان ھو الا وحی یوحی آپ کے تمام کلام کو اپنا کلام ٹھہرایا ہے۔ بلکہ ایک جگہ اور تمام بندوں کو آپ کے بندے قرار دیا ہے۔ قل یا عبادی یعنی کہہ کہ اے میرے بندہ! بس ظاہر ہے کہ جس قدر صراحت اور وضاحت سے ان پاک کلمات سے ہمارے نبیﷺ کی خدائی ثابت ہوسکتی ہے۔ انجیل کے کلمات سے یسوع کی خدائی ہرگز ثابت نہیں ہوسکتی۔