قبول کرے گا۔ اور بڑے زور آور حملوں سے اس کی سچائی ظاہر کردے گا۔ اس کے لیے وہ مقام ہے۔ جہاں انسان اپنے اعمال کی قوت سے نہیں پہنچ سکتا۔ تو میرے ساتھ ہے۔ تیرے لیے رات اور دن پیدا کیا گیا۔ تیری میری طرف وہ نسبت ہے۔ جس کی مخلوق کو آگاہی نہیں۔ اے لوگو! تمہارے پاس خدا کا نور آیا۔ پس تم منکر مت بنو۔ وغیرہ الخ! (کتاب البریہ ص۸۲تا۸۵، خزائن ج۱۳ ص۱۰۰تا۱۰۳)
اور ان کے ساتھ اور مکاشفات ہیں۔ جو ان کی تائید کرتے ہیں۔ چنانچہ ایک کشف میں میں نے دیکھا کہ میں اور حضرت عیسیٰ ایک ہی جوہر کے ٹکڑے ہیں اس کشف کو میں براہین میں چھاپ چکا ہوں۔ جس سے ثابت ہوتا ہے کہ ان کی تمام صفات روحانی میرے اندر ہیں۔ اور جن کمالات سے وہ موصوف ہوسکتے ہیں۔ وہ مجھ سے بھی ہیں۔ اور ہر ایک کشف سے جو (آئینہ کمالات اسلام ص۵۶۴،۵۶۵، خزائن ج۵ ص۵۶۴،۵۶۵) میں مدت سے چھپ چکا ہے۔ ’’میں نے اپنی کشف میں دیکھا کہ میں خود خدا ہوں۔ اور یقین کیا کہ وہی ہوں۔ اور میرا اپنا کوئی امر کوئی خیال اور کوئی عمل نہیں رہا۔ اور میں ایک سوراخ دار برتن کی طرح ہوگیا ہوں یا اس شئے کی طرح جسے کسی دوسری شئے نے اپنے بغل میں دبا لیا ہو۔ اور اسے اپنے اندر بالکل مخفی کرلیا۔ یہاں تک کہ اس کا کوئی نام و نشان باقی نہ رہ گیا ہو۔ اس اثناء میں میں نے دیکھا کہ اللہ تعالیٰ کی روح مجھ پر محیط ہوگئی۔ اور میرے جسم پر مستولی ہو کر اپنے وجود میں مجھے پنہاں کرلیا۔ یہاں تک کہ میرا کوئی ذرہ بھی باقی نہیں رہا۔ اور میں نے اپنی جسم کو دیکھا۔ تو میرے اعضاء اس کے اعضاء اور میری آنکھ اس کی آنکھ اور میرے کان اس کے کان اور میری زبان اس کی زبان بن گئی ہے۔ میرے رب نے مجھے پکڑا۔ اور ایسا پکڑا۔ کہ میں بالکل اس میں محو ہوگیا۔ اور میں نے دیکھا کہ اس کی قدرت اور قوت مجھ میں جوش مارتی ہے۔ اور اس کی الوہیت مجھ میں موجزن ہے۔ حضرت عزت کے خیمہ میرے دل کے چاروں طرف لگے ہیں۔ اور سلطان جبروت نے میرے نفس کو پیس ڈالا۔ سو نہ تو میں ہی رہا۔ اور نہ میری کوئی تمنا ہی باقی رہی۔ میری اپنی عمارت گر گئی۔ اور رب العالمین کی عمارت نظر آنے لگی۔ اور الوہیت بڑی زور کے ساتھ مجھ پر غالب ہوئی اور میں سر کے پائوں کے ناخن پاتک اس کی طرف کھینچا گیا۔ پھر میں ہمہ تغیر ہوگیا۔ جس میں کوئی پوست نہ تھا۔ اور ایسا تیل میں گیا۔ کہ جس میں کوئی میل نہ تھا اور مجھ میں اور میرے نفس میں جدائی ڈال دی گئی۔ پس میں اسی شئے کی طرح ہوگیا۔ جو نظر نہیں آتی۔ یا اس قطرہ کی طرح جو دریا میں جاملے۔ اور دریا اس کو اپنی چادر کے نیچے چھپالے۔ اس حالت میں نہیں جانتا کہ اس سے پہلے میں کیا تھا۔ اور میرا وجود کیا