اور عامل بالحدیث کی حالت پر افسوسناک مضمون بھیجا۔ تو ہم نے مولوی صاحب کو ڈانٹا۔ چنانچہ وہ اپنی سادہ لوحی اور اس حرکت سے تائب ہوئے۔ اور اعلان دیا۔ کہ مچھ پر اس مصنوعی مجدد فی الدین کا کذب ظاہر ہوگیا۔ لہٰذا بیعت فسخ کرتا ہوں۔
یہ سادھو متصل کے ایک قصبہ میں پہنچا۔ اور وہاں کے مسلمانوں کو چکنے چپڑے وعظ سے ٹھگنا چاہا۔ ایک صاحب نے حضرت شیخ الکل مولانا سید محمد نذیر حسین صاحب محدث دہلوی مرحوم کے نام اس شخص کی کیفیت معلوم کرنے کے لیے خط بھیجا۔ حضرت مرحوم نے جواب میں لکھا۔ کہ یہ شخص بڑا ظالم ہے اس کے کید سے بچتے رہو۔ بالآخر وہاں سے بھی نکالا گیا۔
اس شخص کی ظاہری حالت یہ تھی کہ ایک نیمہ کرتہ اور ایک تہ بند اور ایک کمبل اوڑھے ہوئے تھا۔ گلے میں حمائل کلام مجید تھی۔ اور بس خواہ مخواہ ہر شخص دھوکہ میں آجاتا تھا۔ کہ باخدا بلکہ ولی اللہ ہے۔
سادھو بچے تو وہ روپ گانٹھتے ہیں کہ مرزا جی ان کے مقابلہ میں پیر نابالغ ہیں کیا طاقت ہے کہ ان کی خود غرضی کا بھید کسی پر کھل سکے۔ مرزا جی نے تو اکثر اوقات آپ اپنی قلعی کھول دی ہے اور کھول رہے ہیں۔ گرگٹ کی طرح بیس پچیس برس کے عرصہ میں کیا کیا رنگ بدلے۔ اولاً الہام کے مدعی پھر مثیل المسیح پھر مسیح موعود پھر مہدی مسعود پھر ظلی اور بروزی بنی پھر خاتم الخلفاء اور امام الزمان ہوگئے۔ جس شخص کو ذرا بھی عقل ہے وہ اس تغیر حالت سے نتیجہ نکال سکتا ہے کہ آپ بظاہر سب کچھ ہیں۔ مگر درحقیقت کچھ بھی نہیں۔ مرزا جی اپنی زبان حال سے یہ شعر پڑھ رہے تھے۔
گر کوئی آ کے دیکھے تو کچھ بھی نہیں ہوں میں
سر پر اٹھائے پھرتی ہے شورِ فغاں مجھے
مرزا صاحب مدعی الہام رہتے۔ تو دس گنی ترقی کرتے۔ مگر چور کے پائوں کہاں ہوتے ہیں؟ کچے سادھو بچوں میں استقلال کہاں، اولا پیٹ میں قراقر ہوا۔ ریاح فاسد کی گھوڑ دوڑ ہونے لگی۔ پھر سوء ہضم کی نوبت آئی۔ پھر تخمہ ہوا۔ پھر ہیضہ ہوا۔ پھر اس کے سمیّت وبائی طور پر تمام مرزائیوں میں پھیل گئی۔ کیونکہ بے احتیاطی کے نتائج ایسے ہی ہوتے ہیں۔ ہیضہ اور طاعون وغیرہ سب انسانی افعال کے ثمرات ہیں۔ خدا تعالیٰ جس کی صفت رحمن و رحیم ہے کسی کو ہلاکت میں نہیں ڈالتا۔ بلکہ انسان خود ہلاکت میں پڑتا ہے۔ ورنہ خدائے تعالیٰ ہرگز یہ ارشاد نہ کرتا۔ (ولا تلقوا بایدیکم الی التھلکۃ) یعنی اپنے ہاتھوں اپنے کو ہلاکت میں نہ ڈالو۔ اس سے ثابت ہے کہ اکثر ہلاکتیں خلاف مرضی الٰہی اور خلافِ مشیت ہیں جس طرح شراب خوری، حرام کاری، قتل اور