ایڈیٹر… بے شک ہر انسان کے دل پر اس کی کانشنس کی صلاحیت کے موافق الہام ہوتا ہے۔ الہام نہ صرف نیکی ہے۔ بلکہ بدی سے متعلق ہے۔ (الہمھا فجورھا و تقوھا) مگر یہ ایسی کیفیت نہیں۔ کہ بجز ملہم کے کوئی اور محسوس کرسکے۔ کیونکہ علیم بذات الصدور صرف خدائے علام الغیوب ہے۔ ہاں سچے ملہم کے آثار دوسروں پر بھی کھل جاتے ہیں۔ جیسے پھولوں کی خوشبو کہ آنکھوں سے محسوس نہیں ہوتی۔ مگر دماغی حس میں پہنچ جاتی ہے۔ سچے الہام کی یہی صفت ہے اور چونکہ کوئی شخص اپنا دل چیر کر کسی کو نہیں دکھا سکتا۔ تاکہ معلوم ہو کہ الہام ہے یا اضغاث احلام یا وسوسہ احتلام یا خیالات فسق و حرام یا صور احتلام واوہام۔ لہٰذا ہر مکار دعویٰ کرسکتا ہے۔ کہ مجھ پر الہام ہوتا ہے جس کا ثبوت مریدوں اور چیلوں کے محض عقیدے کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ بعض بہروپئے اور سادھو بچے تو روغن قاز مل کر وہ وہ روپ گانٹھتے ہیں۔ کہ بڑے بڑے سیانے کوے ان کے دام میں پھنس جاتے ہیں۔
بھوپال میں ایک بڑے مولوی صاحب جو مشاہیر علمائے اہل حدیث سے ہیں۔ ان پر ایک سادھو بچے نے ایسا افسوں دم کیا۔ کہ اس کے دلالوں کے جھانسوں اور مکر وزور کے دلاسوں میں پھنس کر پر قینچ کبوتر بن گئے اور بیعت ہو کر اس کا دم بھرنے لگے۔ اور بالآخر یہ اعلان دیا کہ یہ شخص مجدد ہے۔ شوکت اللہ کو اس سادھو بچے کی حقیقت اچھی طرح معلوم تھی۔ اور اس کا تجربہ ہوچکا تھا۔ جبکہ وہ ایک دفتری کے امرد لونڈے پر فریفتہ ہوا تھا اور رات دن اس کے تعشق میں روتا اور درس و وعظ سے جو کچھ کماتا۔ اس کے والدین کے چولہے میں جھونک دیتا تھا۔ چنانچہ کئی سو روپیہ اس کے والدین کو دیا۔
یہ مکار بڑے بڑے چالوں سے لوگوں کو ٹھگتا تھا۔ ایک مرتبہ اپنے وطن سے متواتر اپنے نام خطوط منگوائے۔ کہ فلاں شخص کے قرض میں آپ کا گھر نیلام ہونے والا ہے۔ اور عدالت نے اس کو ڈگری دیدی ہے۔
اس عیار نے لوگوں کو وہ خطوط دکھائے۔ اور یوں رقمیں اینٹھیں بالآخر اسی دفتری کے لونڈے کے تعشق میں بدنام ہوکر یہ لوطی بڑی رسوائی اور تفضیح کے ساتھ نکالا گیا۔ زار قطار روتا ہوا ہمارے پاس آیا کہ للّٰہ میری دستگیری کرو اور مجھے وطن تک پہنچا دو۔ الغرض ہم نے ضروری صد روپے دیے اور رخصت کیا۔ جب ہم کو مولوی صاحب بھوپالی کی نو گرفتاری کا حال معلوم ہوا۔ اور چار طرف سے بعض معتبر اور مستند لوگوں کے خطوط آئے۔ اور بھوپال سے بھی نامہ نگار نے مولوی صاحب جیسے متقی