جائیں تو عجب نہیں۔ مگر یورپ کے تعلیم یافتہ آزاد منش اندھے ہو کر جو گرویدہ ہو جاتے ہیں۔ اور شروط کی سلاسل میں ان کو جکڑ لیتے ہیں۔ یہ عجب معاملہ ہے۔ ان (مسٹر پیکٹ ) میں ضروری کوئی بات ہوگی۔ جو ایک گروہ عظیم نے اس کو مسیح تسلیم کرلیا۔
تیسرا… یہ تو ممکن ہے۔ دنیا میں ایک خیال کے کچھ آدمی جمع ہو کر سادہ لوح انسانوں کو اپنے جال میں پھانس لیں۔ اور یہ ہمیشہ ہوتا ہے دنیا میں بہت سے ایسے لوگ موجود ہیں۔ جن کے لاکھوں آدمی معتقد اور مرید ہیں۔ ان میں سے ہر ایک شخص یہ دعویٰ کرسکتا ہے۔ کہ میں مسیح ہوں۔ کیا وہ مسیح یا مہدی ہو جائے گا۔ اور کوئی مسیح یا مہدی ہوسکتا ہے سوڈان میں کتنے مہدی پیدا ہوئے۔ کیا ان میں کوئی سچا مہدی تھا۔ اپنی اپنی خود غرضی کو اس مکر و فریب کے پردہ میں دیکھا کر معدوم ہوگئے۔
چوتھا… مرزا صاحب مسٹر پکٹ کا دعویٰ مسیحیت سن کر جھلائے۔ تو بہت غصہ میں کچکچا غیظ و غضب میں دانتوں کو چبا کر مسٹر پکٹ کے نام ایک چٹھی لکھ ماری جس میں بدستور دوپٹی پیشگوئی ہانکی ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ اگر وہ (مسٹر پکٹ) اپنے دعوئوں سے توبہ نہ کرے گا تو بہت جلد میری زندگی میں ہلاک ہو جائے گا۔ یہ ویسی تاویل ہے جیسی میعاد مقررہ پیشگوئی میں مسٹر عبد اللہ آتھم کے مرنے پر کی گئی۔ یعنی اس کے دل میں خوف طاری ہوگیا تھا۔ اس لیے ہلاک نہ ہوا۔
پانچواں… اس لغو تاویل کی بارہا چھنکار ہوچکی ہے۔ چونکہ مرزا جی خود چاہتے ہیں کہ میری پیشگوئی غلط اور گوزشتر ہے۔ لہٰذا کوئی میعاد نہیں بتائی۔ کیونکہ ان کو آتھم والی پیشگوئی کا خوف ہوا۔ صرف لفظ (بہت جلد) لکھنے پر ٹالا۔
چھٹا… خوب اگر مسٹر پکٹ مرزا جی کی زندگی میں نہ مرا۔ تو وہ کہہ سکتے ہیں کہ میں نے تو یہ قید لگا دی تھی۔ کہ اگر وہ اپنے دعوئوں سے توبہ نہ کرے گا تب ہلاک ہوگا۔ اب چونکہ وہ زندہ رہا۔ لہٰذا ضرور اپنے دعوئوں سے تائب ہوچکا ہے۔ وہ ہی آتھم والی راگ مالا۔
اب فرمائیے! کہ مرزا جی کی پیشین گوئی نے کیا تیر مارا۔ ہر مدبر بلکہ ہر ایک شخص کہہ سکتا ہے کہ فلاں معاملے کا پہلو یوں نہ ہوا۔ تو ضرور مضر ہوگا۔ اور یوں ہوا تو مفید ہوگا۔ ایک وکیل اپنے ملزم موکل سے کہہ سکتا ہے کہ اگر اس نے اپنا ڈیفنس عمدہ طور پر کیا۔ تو تم رہا ہو جائو گے۔ ورنہ سزا پائو گے۔ دونوں باتوں میں سے ایک بات ضرور ہو کر رہتی ہے۔
مگر کیا ہر وکیل مسیح موعود ہے؟ معلوم نہیں کہ مرزائیوں کی عقل کہاں غت ربود ہوگئی ہے۔ کہ اپنے پیرو مرشد کی چالوں کو نہیں سمجھتے اور اس کو مسیح تسلیم کرلیتے ہیں۔
(ضمیمہ شحنہ ہند ۲۴ مئی ۱۹۰۳ئ)