کے زمانہ میں بہت کچھ کر ڈالا۔ آخر کار گورنمنٹ نے دست اندازی کرکے اس کاروائی کو بند کیا۔ اس کا خاندان غدر کے زمانہ میں خیر خواہ تھا۔ چنانچہ سر لیبل گریفن نے اپنی کتاب روسائے پنجاب میں بھی ذکر کیا ہے۔
یہ دعویٰ کرتا ہے کہ میں گورنمنٹ کا بڑا خیر خواہ ہوں۔ مگر یہ دعویٰ بالکل تسلیم نہیں کیا جاتا۔ یہ کہتا ہے کہ میرا فتویٰ جہاد کے خلاف ہے۔ پانچ سال ہوئے۔ سرمیکورینگ کو ایک میموریل اس نے لکھا تھا۔ کہ جہاد کے مسلمہ مسئلہ سے انکار کرنا ہی مجھ کو مسیح موعود اور مہدی مان لینا چاہیے۔
پادری صاحب کہتے ہیں کہ اہل اسلام میں تعصب اور مذہبی جوش کا میلان نہ ہوتا۔ تو یہ مذہب بہت ہی اچھے عقیدہ کا ہوتا۔ جبکہ مجھ کو بہت سے معزز و محترم اصحاب کی ملاقات سے معلوم ہوا۔ (سبحان اللہ۔ اس مقدس مذہب کی عظمت اسی سے ظاہر ہے کہ پادری صاحب کے قلم سے بے ساختہ اس کی تعریف نکل رہی ہے۔ بدنام کنندہ نیکو نامے چند۔ ان کو دیکھ کر اسلام کے متعلق رائے قائم کرلینا سخت غلطی ہے)
مرزا صاحب کی تعلیم تعصب جہالت کے بند کھول رہی ہے۔ اور اس کوشش میں ہے۔ کہ مذہبی جوش جڑ بنیاد سے جاتا رہے۔
کسی تیز طرار مسلمان کا نام احمد ہونا ہی اس کے لیے قیامت ہے۔ کیونکہ قرآن شریف میں آنے والے احمد کی پیشگوئی درج ہے۔ لکھا ہے کہ عیسیٰ ابن مریم نے فرمایا: کہ اے بنی اسرائیل لاریب میں خدا کا رسول ہوں۔ اور اس لیے بھیجا گیا ہوں۔ کہ خدا کے ان احکام کو مضبوط کروں جو مجھ سے پہلے آچکے ہیں اور اس رسول کا اعلان دوں۔ جو میرے بعد آئے گا اور جس کا نام احمد ہوگا۔ اس آیت کا اسلامی تاریخ پر بہت برا اثر نہیں پڑا۔ بڑا تباہ کن سوڈانی مہدی بھی احمد نامی تھا۔ ہندوستان میں ہی چار احمد مذہبی سردار ہوچکے۔ (۱) شیخ احمد سرہندی۔ (۲) سید احمد غازی بریلوی۔ (۳) سید احمد خان۔ (۴) قادیانی رسول (مگر یہ تو غلام احمد بیگ ہے۔ نہ کہ مرزا احمد۔ تاہم نہ صرف احمد سے بلکہ تمام انبیاء سے اپنے کو برتر سمجھتا ہے) غلام احمد کے خاندان میں تعصب تو نہیں مگر لالچ ضرور ہے۔ اس کا چچا زاد بھائی پنجاب کے مہتروں (حلال خوروں) کا گرو بن بیٹھا۔ اس طرح ایک بھائی دوسرے کے خلاف چلتا ہے۔ اسی موضع قادیاں میں مہتروں کا سالانہ ہجوم یا میلہ ہوتا ہے غلام احمد وہاں کارکن ہے اس کے اصول چار ہیں۔ تعلیم میٹرنس۔ مباحثہ کے مطالبے، قادیاں میں اس کا ایک کتب خانہ اور ایک مطبع ہے اردو میں الحکم شائع کرتا ہے۔ اور انگریزی میں ریویو آف ریلجنس یعنی مذہب کی