فرض ہم سے سیکھیں۔ منتشر الخیالی چھوڑ دیں۔ اور اپنی طاقت کے موافق مغربی طریقہ اختیار کریں۔ ایک خطرہ ملک میں یہ پھیلا ہوا ہے۔ کہ بے حساب مذہبی تحریکیں ہوتی رہتی ہیں۔ حالانکہ گورنمنٹ ہند نے اپنی حکمت عملیوں سے دینی حرارت یا تعصب کو بہت کچھ دبا دیا ہے۔
آپ بتائیں کہ پنجاب کے علاوہ دوسرے صوبوں میں کتنے انگریزوں کو اس بات کا علم ہے۔ کہ پنجاب میں احمدیہ تحریک ہو رہی ہے۔ حالانکہ مذہب اسلام میں جو دو بڑی تحریک یا رخنہ اندازیاں ہوئیں۔ ان میں سے ایک یہ بھی ہے۔ کل ہندوستان میں چار نئے گروہ پیدا ہوئے۔ ممالک متحدہ اور بنگال میں علی گڑھ والے اور برہم سماجی دو گروہ ترقی کر رہے ہیں یہ دونوں فرقہ آزاد منش بے تعصب قدرت کے قائل اور گورنمنٹ کے خیر خواہ ہیں۔ جو لوگ ہندوستان کی بہبودی چاہتے ہیں۔ ان کے پرسان حال نہیں ہوتے۔ کہ کیا کر رہے ہیں۔ اور کس رنگ میں ہیں۔
مدت ہوئی کہ آریہ سماج اصلاح کے لیے بمبئی میں قائم کیا گیا تھا مگر اب وہ پنجاب میں ترقی کر رہا ہے اور اپنی کمال عروج پر ہے۔ ہم اس وقت اس کے متعلق بحث کرنا نہیں چاہتے۔
اسلام کے نام پر فرقہ احمدیہ نے انقلاب پیدا کر دیا ہے۔ یہ لوگ بالکل نئے عقائد کے پابند ہیں۔ کہتے ہیں۔ کہ ہم ملکی امن کے بدل خواہاں ہیں۔ اور گائے کی طرح غریب اور حلیم الطبع ہیں۔ مگر ان کی حرکتوں پر ایک دو مرتبہ گورنمنٹ کو توجہ کرنی پڑی ہے۔ ہنوز اس فرقہ کی تحریک پنجاب تک محدود ہے۔ اس کے پیروئوں کی تعداد پر نظر ڈالنے کی سب سے پہلے ضرورت ہے گزشتہ مردم شماری کے آدمی گیارہ سو جوان مرزا غلام احمد قادیانی کے پیرئو ہیں۔ اس کا آرگن تو یہ لکھتا ہے کہ ہمارے ساتھ پچاس ہزار بلکہ ستر ہزار آدمی کا گروہ ہے (نہیں جناب تقریباً دو لاکھ) حال میں ۳۶ صفحہ کا ایک پمفلٹ شائع ہوا ہے جس کا نام ’’مرزا غلام احمد مہدی مسیح قادیانی‘‘ ہے اس کے مصنف لاہور کے پادری ایچ ڈی گراولڈ صاحب فلسفہ کے ڈاکٹر ہیں۔ اس رسالہ میں معمول سے زیادہ سخت الفاظ استعمال کیا گیا ہے۔ مگر جو کچھ لکھا ہے وہ بادی النظر میں صحیح اور درست معلوم ہوتا ہے۔ قادیاں ضلع گورداسپور میں واقع ہے۔ وہاں ایک پینسٹھ سالہ آدمی رہتا ہے۔ جس کی صورت بزرگوں کی سی ہے۔ چہرہ مسخر القلوب اور عقل تیز ہے۔ یہ مرزا غلام احمد رئیس قادیاں ہیں۔ اسی وجہ سے قادیانی کہلاتے ہیں۔ فرقہ احمدیہ کے بانی وسردار ہیں۔ ذات سے مغل ہیں۔ چار صدیاں گزریں۔ بابر کی عہد حکومت میں ان کے بزرگ سمرقند سے آئے تھے۔ موروثی پیشہ دوا فروشی ہے۔
غلام احمد نے اپنے مختصر رسالوں میں لاف زنی اور چٹھی پٹھی ادویات کے ذرائع سے وبا