سچ ہونے پر ہم خوش بھی ہیں کاش وہ سوچیں اور سمجھیں۔ کہ اس اعلی درجہ کی صفائی کے ساتھ کئی برس پہلے خبر دینا انسان کا کام نہیں ہے۔ ہمارے دل کی عجیب حالت ہے۔ درد بھی ہے اور خوشی بھی ہے۔ درد اس لیے کہ اگر لیکھرام رجوع کرتا، زیادہ نہیں تو اتنا ہی کرتا۔ کہ وہ بدزبانیوں سے باز آجاتا۔ تو مجھے اللہ تعالیٰ کی قسم ہے کہ میں اس کے لیے دعا کرتا۔ اور میں امید رکھتا تھا کہ اگر وہ ٹکڑے ٹکڑے بھی کیا جاتا تو زندہ ہو جاتا۔ وہ خدا جس کو میں جانتا ہوں۔ اس سے کوئی بات انہونی نہیں۔ خوشی اس بات کی کہ پیشگوئی نہایت صفائی سے پوری ہوئی۔ آتھم کی پیشگوئی پر بھی اس نے دوبارہ روشنی ڈال دی۔ (سراج المنیرص۲۳،۲۴، خزائن ج۱۲ ص۲۷،۲۸)
حواری… ایک خاص بہادر مسلمان پیسہ اخبار کا اڈیٹر اپنی وسعت اور کثرت کی وجہ سے بڑا دلیر تھا۔ اس نے پرچہ ۲۰؍مارچ ۱۸۹۷ء میں حضور سے ڈر کر التجا کی ہے کہ مجھے کچھ عرصہ زندہ رہنے دیجیے۔ اور میری نسبت کوئی پیشگوئی نہ کیجیے گا۔ اور ۲۷ مارچ کے پرچہ میں اس جواب کو جواب معقول تسلیم کرکے تائید کرتا ہے۔ مگر مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی اس کی تردید کرتے ہیں۔
مولانا محمد حسین صاحب… حاصل جواب الہامی صاحب یہ ہے کہ اخبار پنجاب سماچار میں جو مجھ پر سازش قتل کا الزام لگایا۔ اور یہ کہا ہے کہ اس کے مرید نے مقتول کو قتل کر دیا ہوگا۔ اس سے میں پوچھتا ہوں کہ آپ کے راجہ رام چندر یا کرشن نے کسی اپنی پیشگوئی کو پورا کرنے کے لیے ایسا حیلہ کیا۔ اور کسی چیلہ سے کہا تھا؟ کہ میری عزت رکھنے کے لئے ایسا کرنے پر اگر مرید سے یہ کہے تو وہ اس کا معتقد اور مرید کب رہتا ہے۔
اس جواب کے نامعقول ہونے کی وجہ یہ ہے کہ جو ہندو آپ پر سازش قتل کا الزام لگاتے ہیں۔ اور آپ کے مریدوں کو ایک صادق پیر کے مرید کب خیال کرتے ہیں۔ وہ تو ہندو ہیں اکثر مسلمان آپ کو فریبی اور آپ کے کئی مریدوں کو بناوٹی مرید اور کرایہ کے ٹٹو خیال کرتے ہیں۔ اور ’’یکے دزُد باشد۔ یکے پردہ دار۔‘‘ کا مصداق نِصْفٌ لِیْ وَنِصفُ لَکُمْ کے شرکائ۔
آپ جو ایسے مریدوں کی پاکی و نیک چلنی بیان کرتے ہیں۔ ان کے مقابلہ میں وہ ان کے حالات دیکھ رہے ہیں۔ کہ وہ اسلامی انجمنوں کے وکیل بن کر اور ان کی طرف سے واعظ ہو کر بنگالی عورتوں کے اغوا کے مقدمات میں ماخوذ ہوئے۔ گو آخر مستغیث کو جھوٹا وعدہ دے کر ہم تیری عورت کو علیحدہ کر دیں گے۔ سزا سے بچ گئے۔ مگر عورت کو علیحدہ نہ کیا۔ اور انجمنوں کے چندہ سے زنا کاری اور شراب خوری کے مرتکب ہوئے۔ اس وجہ سے انجمنوں نے ان کو اپنی وکالت سے علیحدہ کیا۔ اور ان کے حالات کو بذریعہ اشتہارات مشتہر کیا۔