پڑی۔ جب میں آپ کی طرف رجوع اور آپ کے موافق ہونے والا ہوں۔ تو چاہوں ہزار مخالفت کروں۔ آخر میدان تو آپ کے ہاتھ آنے والا ہے … لہٰذا اس یقین کرنے کی کافی وجہ بھی موجود ہے۔ وہ الہام آپ کا محض افتراء ہے۔ جس سے آپ کی غرض یہ ہے کہ خاکسار آپ کی پیشگوئی کی نکتہ چینی نہ کرے۔ پھر آپ فرماتے ہیں۔ مخالفانہ تحریر کی کیا ضرورت ہے۔ مباہلہ سے آسانی سے فیصلہ ہوسکتا ہے۔
یہ خاکسار اپنی نیک نیتی اور سچائی کی نظر سے اور خدا تعالیٰ کو ناصر و معاون حق ہونے کے امید و بھروسا پر آپ کی دعوتِ قسم کی قبول کرنے کو بغیر کسی معاوضہ یا تاوان کے حاضر ہے۔ وغیر ہ وغیرہ۔ از اشاعت السنہ نمبر ۲ جلد ۱۸ ص ۵۱ و ۵۲۔
حواری… عجیب دلیر اور ضدی آدمی ہے۔ خدا کے نبی اور مرسل کے مقابلہ میں مباہلہ کو بھی تیار ہے۔
مرزا صاحب… (آشفتہ خاطری سے) حاسد ہے۔ کم بخت اپنی جان کا بھی خوف نہیں کرتا۔ ہمارا مقابلہ گویا خدا کا مقابلہ ہے۔
ظریف… حضور! ’’گھر کا بھیدی لنکا ڈھائے‘‘ یہ ایک مشہور مثل ہے۔وہ بھی تو آپ کے ہم مکتب ہیں۔ ساتھ کھیلے۔ ساتھ پڑھے۔ ایک استاد کی شاگردی کی۔ ان کا شک و حسد بھی بجا ہے بے جا نہیں۔ آپ کے ایک بھائی مرزا امام الدین چوہڑوں کے پیر سلطان العارفین ہو جائیں اور ایک ہیجڑوں کے سردار اور آپ کے مدارجِ علوی کا تو ذکر کیا ہے۔ امام، مجدد، محدث، مسیح موعود، مہدی بے نظیر انبیاء و اصفیاء سے اولی و افضل بلکہ خدا اور خدا کے بیٹے اور خدا کے باپ بھی بن گئے۔ جو آدم سے لے کر آج تک کسی کو یہ منصب نہ ملا۔ اور نہ کسی نے یہ دعویٰ کیا۔
مولوی صاحب بے چارے نے برسوں جان کھپائی دماغ کھپایا۔ مغز کھایا گھر بار چھوڑا۔ اپنے بیگانے کا رشتہ توڑا۔استاد کی خدمت کی۔ جوتیاں اٹھائیں۔ مولوی کے مولوی رہے۔ جو حضرت (مرزا صاحب) کے دربار سے ہر ایک کندہ ناتراش کو بے چھیلے چھلائے خراد پر چڑھائے یہ خطاب عطا ہو جاتا ہے۔ بس بیعت کی دیر ہے۔ ساتوں طبق کھلے۔ عالم فاضل بن گئے۔ حقائق و معانی قرآنی اور نکات و حدیث دانی کے واقف اور ماہر ہوگئے۔ اور واقف بھی ایسے کہ صحابہ کرام اور تابعین کا کیا ذکر ہے۔ نبی کریمﷺ کی بھی سمجھ میں جو بات نہ آئی۔ وہ ان کو بتلائی گئی۔ مولوی صاحب بھی انسان ہیں۔ کوئی فرشتہ نہیں۔