نہیں ہرگز نہیں۔ اس سے تو تحدی اور کرامت باطل ہوتی ہے اور تحدی اور کرامت اور اخبار غیب تو اسی صورت میں متصور ہے کہ جو اس واقع کے وقوع کی اصلی حد ہو۔ وہ بتا دی جائے۔ کسی میعاد قریب کو بعید کرکے بتانا نہ صرف بطل تحدی و خلاف کرامت ہے بلکہ وہ حکمت کے بھی برخلاف ہے اور سراسر حماقت اور سفاہت ہے جو خدا حکیم و علیم و ملہم الصادقین کی شان کے مخالف ہے۔ اور اس کا عکس کہ ایک امر بعید الوقوع کو ایسے سچے اور صحیح الفاظ میں بیان کرنا جس سے اس کا قریب ہونا مفہوم ہو۔ عین حکمت ہے۔
اس اصول سے اسلام میں اور پہلے دینوں میں قیامت کو قریب بتایا گیا ہے۔ باوجودیکہ ہزار برس گزر چکے ہیں۔ اور اس وجہ سے خبر فتح روم کو جو سات برس میں واقع ہونے والی تھی۔ لفظ بضع سے اس کا اطلاق عرب میں تین سے نو تک ہوتا ہے۔ اور اس لفظ کے بولنے سے تیسرے ہی سال کے بعد فتح کی امید شروع ہوگئی تھی۔ اور اس سے دوستوں کو خوشی اور دشمنوں کو خوف پیدا ہوگیا تھا۔ بتایا گیا ہے جس کی تفصیل ہمارے مضمون خط میں بصفحہ ۳۴۶ جلد ۱۷ میں ہے۔ الہامی صاحب نے موت لیکھرام کے متعلق پیشگوئی میں اس اصول حکمت کا خلاف کیا۔ اور اس سے یہ ثابت کیا۔ کہ وہ پیشگوئی الہامی اور روحانی نہ تھی۔ بلکہ ایک وسوسہ شیطانی تھا۔ جو جھوٹا نکلا۔ ایک وجہ اس پیشگوئی شش سالہ کی جھوٹی نکلنے اور سچی نہ ہونے کی یہ بھی ہے کہ اس عذاب کی (جس کی اس پیشگوئی میں خبر دی گئی ہے) الہامی صاحب کے آئینہ کمالات کے صفحہ اخیر میں ان الفاظ سے کہ وہ غیر معمولی اور خارق عادت ہوگی۔ تفسیر کی ہے۔ چنانچہ کہا ہے کہ اگر اس شخص پر چھ برس کے عرصہ میں آج کی تاریخ سے کوئی ایسا عذاب نازل نہ ہوا۔ جو معمولی تکلیفوں سے نرالا اور خارق عادت اور اپنے اندر ہیبت الٰہی رکھتا ہو۔ تو سمجھو میں خدا کی طرف سے نہیں۔ اور یہ قتل جس کیفیت سے وقوع میں آیا ہے۔ وہ معمولی کیفیت ہے۔ نہ نرالی، نہ غیر معمولی، نہ خارق عادت، ایسے واقعات صدہا وقوع میں آتے ہیں۔ ہسپتالوں میں جا کر زخمی لاشیں دیکھ لو۔ پولیس اور عدالت میں ایسے صدہا کیس ملاحظہ کرلو۔ تھوڑے دن ہوئے کہ لاہور کے بازار انار کلی میں ایک میم کو ایک فقیر نے چھری سے مار ڈالا۔ اس سے پہلے چھائونی پشاور کے اسٹیشن پر ایک فوجی افسر کو ایک سرحدی افغان نے چھری سے قتل کیا۔ ایسے واقعات کو آنکھوں سے دیکھنا ہو تو پشاور کے قریب چلے جائو۔ اور مشاہدہ کرلو۔
ایسے واقعات کو کوئی ذی عقل اور صاحب فہم معمولی سی نرالی اور خارق عادت نہیں کہہ