مرزا صاحب… ’’اس بات کو ہم خود مانتے ہیں کہ پیشگوئی کی تشریح میں بفہم الٰہی سے بار بار ظاہر کیا ہے کہ وہ ہیبت ناک طور پر ظہور میں آئی گی اور نیز یہ کہ لیکھرام کی موت کسی بیماری سے نہیں ہوگی بلکہ خدا کسی ایسے کو اس پر مسلط کرے گا جس کی آنکھوں سے خون ٹپکتا ہوگا۔ مگر پنجاب سماچار نے ۱۰؍مارچ ۱۸۹۷ء میں الہام کے حوالہ سے جو عید کا دن لکھا ہے یہ اس کی غلطی ہے۔ الہام کی عبارت یہ ہے کہ ستعرف یوم العید والعید اقرب۔ یعنی تو اس نشان کو جو عید کی مانند ہے پہچان لے گا۔ اور عید اس نشان کے دن سے بہت قریب ہوگی۔ یہ خدا نے خبر دی ہے کہ عید کا دن قتل کے دن کے ساتھ ملا ہوا ہوگا۔ اور ایسا ہی ہوا۔ (سراج المنیر ص۲۱، خزائن ج۱۲ ص۲۴،۲۵)
حواری… کوئی نہیں سوچتا۔ کیا یہ انسان کا کام ہے کہ تاریخ بتلائی گئی۔ دن بتلایا گیا۔ سبب موت بتلایا گیا۔ اور اس حادثہ کا وقوع ہیبت ناک طرزی ظہور میں آنا بتلایا گیا۔ اشاعۃ السنہ کے پرچہ پیش کرکے۔ یہ حضور نے ملاحظہ فرمایا۔
مولانا محمد حسین صاحب… چھریوں والے الہام کا کہیں وجود معلوم نہیں ہوتا۔ اور یوم العید والے الہام میں قتل لیکھرام کا کہیں ذکر یا اشارہ تک نہیں اس میں کشف کی آپ نے سرمہ چشم آریہ میں کچھ معنے لیے ہیں اور قتل لیکھرام کی بابت کچھ لیے ہیں۔ براہین احمدیہ کے الہامات میں سے علیٰ ہذا لقیاس بعد قتل لیکھرام کے معنے گھڑ کر ڈالے گئے ہیں اس سے آپ یا آپ کے ملہم کے خیال میں ہے۔ یہ معنے نہیں تھے۔ اس باب میں جو کچھ آپ نے کہا ہے، سفید جھوٹ ہے۔ ہاں اس قدر مسلم ہے کہ چھ سال کی میعاد قتل لیکھرام کے لیے اشارہ ۲۰ فروری ۱۸۹۳ء میں ضرور مقرر کی گئی تھی۔ مگر اس میعاد کے مطابق یہ قتل وقوع میں نہیں آیا۔
بلکہ اس میعاد سے دو سال پہلے چار ہی سال کے بعد قتل وقوع میں آیا۔ اس سے وہ پیشگوئی جھوٹی ہے نہ سچی۔
جو لوگ چار اور چھ میں فرق کرسکتے ہیں۔ وہ اس پیشگوئی کے جھوٹے ہونے میں شک نہ کریں گے۔ اس کے جواب میں اگر الہامی صاحب بھی کہیں کہ چار کا وعدہ چھ کے عدد میں داخل ہے۔ لہٰذا چار سال پیشگوئی کے پورے ہونے سے چھ سال میں اس کا پورا ہونا صادق آسکتا ہے۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ جیسا چار کا عدد چھ میں داخل ہے۔ دس بیس اور سو تین بھی داخل ہیں۔ پھر کیا اس نظر سے جو واقعہ چار سال میں واقع ہونے والا۔ اس کا دس، بیس، سو برس، تین کی میعاد میں وقوع بیان کرنا اور اس کو تحدی اور کرامت کے طور پر مخالفین کے مقابلہ میں پیش کرنا جائز ہے؟ نہیں