کی موت میں ہم نے کچھ تاخیر ڈال دی۔ تو ہم نے آتھم کو چار ہزار کے انعام پر قسم کھانے کے لیے بلایا۔ اور وہ نہیں آیا اور نہ اس نے قسم کھائی۔‘‘ (سراج المنیر ص۱۷،۱۸، خزائن ج۱۲ ص۲۰،۲۱) حالانکہ یہ ان کو صاف اقرار تھا کہ میں میعاد کے اندر ڈرتا رہا۔ مگر الہامی ہیبت سے نہیں۔ بلکہ تعلیم یافتہ سانپ اور حملہ وغیرہ سے۔
حواری… آخر مر ہی گیا۔ اس وقت نہ مرا، چند ماہ بعد سہی۔
مرزا صاحب… ’’میرے الہام میں یہ بھی تھا۔ اگر آتھم سچی گوائی نہیں دے گا۔ اور قسم نہ کھائے گا۔ تب سے اصرار کے بعد جلد مرے گا۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ اور آتھم صاحب میرے آخری اشتہار سے سات مہینے کے اندر مر گئے۔ (سراج المنیر ص۱۸، خزائن ج۱۲ ص۲۱)
حواری… اس میں کلام کیا ہے؟ حضور آخر مرنا ہی تھا اور کیوں نہ مرتا۔ اور حضرت جی یہ سب تباہ ہوں گے۔ یہ بھی اس ملعون (لیکھرام) کی طرح لقمہ دہان اجل ہوں۔ تو حقیقت معلوم ہو۔
مرزا صاحب… اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے جو ہماری اہانت کرے گا وہ ذلیل ہوگا۔ اور پھر ذلیل ہوگا۔ اگر اب شیخ بٹالوی اور دیگر مولویوں نے اس الہام (قتل) کی تصدیق نہیں کی؟ ان کو بھی یہ روز بد پیش آئے گا۱؎۔
حواری… آمنا و صدقنا کے نبی اور مرسل کی توہین نعوذ باللہ۔ توبہ ہزار توبہ۔
مرزا صاحب… ’’یہ آریہ لوگوں کی بالکل غلطی ہے۔ جو گورنمنٹ کی طرف سے خیال کرتے ہیں کہ لیکھرام کے مقدمہ میں سعی نہیں کی ہے اور آتھم کے مقدمہ میں اگر وہ قتل ہو جاتا۔ تو سستی نہ کرتے۔ ہم کہتے ہیں کہ گورنمنٹ ہندو مسلمانوں کو دونوں آنکھوں کی طرح برابر دیکھتی ہے۔ لیکن گورنمنٹ کا اس میں کیا قصور ہے۔ اور کون سی سستی کی۔ کس قاتل کو آریہ صاحب کس ثبوت کے ساتھ گرفتار کرانا چاہتے ہیں۔ جس کے پکڑنے میں تأمل ہے لیکن خدا کی پیشگوئیوں میں دخل نہیں دے سکتے۔ وہ اہل کتاب ہے خدا سے منکر نہیں۔ جو عالم الغیب آئندہ زمانے کی اس طرح خبر دے۔ گویا وہ موجود ہے۔ کیا چھ سال کی میعاد بیان کرنا اور عید کے دوسرے دن کا پتہ دینا۔ اور صورتِ موت بیان کر دینا یہ خدا سے ہونا محال ہے؟ اگر خدا سے محال ہے۔ تو ان قیدوں کے ساتھ انسان کی ایسی پیشگوئی کیونکر ممکن ہے؟ کیا دور دراز عرصہ سے ایسی صحیح خبریں دینا انسان کا کام ہے؟ اگر ہے۔ تو اس کی دنیا میں کوئی نظیر پیش کرو۔‘‘ (سراج المنیر ص۱۹، خزائن ج۱۲ ص۲۲،۲۳ ملخص)
حواری… اخبار والوں نے اس پیشگوئی سے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ ایک منصوبہ تھا جو پیشگوئی کے طور پر مشتہر کیا گیا۔