چاہے کہے۔ لیکھرام کے قتل کا ذکر نہایت رنگ آمیزیوں کے ساتھ ہو رہا ہے۔ تہنیت اور مبارکباد کا شور ہے۔
مرزا صاحب… (اخبار ملاحظہ فرماتے ہوئے) اخبار عام ۱۰؍مارچ ۱۸۹۷ء ہماری نسبت اشارہ کرکے لکھتا ہے کہ ایک عیسائی ڈپٹی صاحب کی پیشگوئی فوت ہونے کی در عرصہ ایک سال مشتہر کی گئی ہے۔ اور اخباروں میں اس کا چرچہ تھی اور خدانخواستہ ان ایام میں اگر ڈپٹی صاحب کے ساتھ ایسا واقعہ ہو جاتا۔ (یعنی قتل) جس کا خمیازہ لیکھرام صاحب کو بھگتنا پڑا ہے۔ تب اور صورت تھی۔
اب ہر ایک سمجھ سکتا ہے کہ ایڈیٹر صاحب کی اس تقریر کا کیا مطلب ہے۔ بس یہی مطلب ہے۔ کہ اگر ڈپٹی آتھم صاحب قتل ہو جاتے۔ تو ایڈیٹر صاحب کے خیال میں گورنمنٹ کو پیشگوئی کرنے والے کی نسبت فی الفور توجہ پیدا ہوتی۔ اور تفتیش ہوتی۔ جو اب نہیں ہے۔
حواری… اس تقریر سے ایڈیٹر صاحب کی کوئی نیک نیت نہ ہوگی۔
مرزا صاحب… نہیں یہ تقریر ایک سطحی خیال اور خلاف سمجھ کا داغ رکھتی ہے۔
حواری… اور یہ تو حضور نے غور نہیں فرمایا۔ افسوس تو اس کا ہے۔
مرزا صاحب… ہاں ہاں میں خوب جانتا ہوں۔ ایڈیٹر صاحب کی تقریر سے پایا جاتا ہے۔ کہ آتھم کی نسبت پیشگوئی پوری نہیں ہوئی۔حواری… یہی تو میں عرض کرتا تھا۔
مرزا صاحب… ’’ہم مختصر طور پر یاد دلاتے ہیں۔ کہ وہ پیشگوئی بڑی صفائی سے پوری ہوئی۔ آتھم صاحب میرے ایک پرانے ملاقاتی تھے۔ انہوں نے ایک مرتبہ زبانی اور ایک خاص رقعہ کے ذریعہ سے بھی الحاح کیا تھا۔ کہ اگر میری نسبت کوئی پیشگوئی ہو اور وہ سچی نکلے تو میں کسی قدر اپنی اصلاح کروں گا۔ سو خدا نے ان کی نسبت یہ پیشگوئی ظاہر کی۔ کہ وہ پندرہ مہینے کے عرصہ میں ہاویہ میں گریں گے۔ مگر اس شرط سے کہ اس عرصہ میں حق کی طرف انہوں نے رجوع نہ کیا ہو۔ پس چونکہ خدا کی پیش گوئی میں ایک شرط تھی۔ آتھم صاحب خوفناک ہو کر اس شرط کے پابند ہوگئے تھے۔ پس ضرور تھا کہ وہ اس شرط سے فائدہ اٹھاتے۔ لہٰذا شرط کی تاثیر سے ان کی موت میں کسی قدر تاخیر ہوگئی۔‘‘
حواری… حضور اگر کوئی معترض اعتراض کرے۔ کہ اس کا ثبوت کہ انہوں نے دل میں اسلام کی طرف رجوع کیا اور ان پر اسلام کی پیشگوئی کا خوف غالب آگیا تھا۔
مرزا صاحب… ’’جب خدا نے ہم کو اطلاع دی۔ کہ آتھم نے شرط سے فائدہ اٹھایا ہے۔ اور اس