تسلی رہی۔ تجھے خداوند روح القدس کا سہارا اور خداوند یسوع مسیح کا خون (یہ کہہ کر اس کے بے اختیار آنسو نکل پڑے اور جماعت کے آدمی بھی اشکبار ہوئے۔)
(مولانا صاحب) قادیانی چونکہ ایسا شیر بہادر دلیر ہے کہ عقل اور حیا دونوں سے اکیلا مقابلہ کر رہا ہے۔ اس نے عبد اللہ آتھم کی اس بات کے کہنے کو کہ میں مارا جاتا۔ اور اس پر رودینے کو اپنے دعوے کی دلیل بنالیا۔ اور یہ مشتہر کیا۔ کہ عبد اللہ آتھم نے میری پیشگوئی سے ڈر کر یہ کلمہ بولا۔ اور اس پر رو پڑا اس کے رد و جواب اور نیز قادیانی کی درخواست قسم وغیرہ کے جواب میں مسٹر عبد اللہ آتھم کو یہ مشتہر کرنا پڑا۔ کہ میں تیری پیشگوئی کی عظمت سے نہیں ڈرا۔ بلکہ تیرے ناجائز وسائل و تدابیر سے ڈرنا پڑا۔ اور قسم کھانا اور مال کا لالچ کرنا میرے مذہب میں منع ہے۔
خط مسٹر عبد اللہ آتھم
بخدمت مکرم اڈیٹر صاحب نور افشاں! بعد نیاز تصدیق یہ ہے کہ فتح اسلام اور مختصر تقریر مرزا صاحب قادیانی کا جواب میری طرف سے یہ ہے۔ کہ میں نے کچھ بھی عظمت اسلام سے جناب کی نبوت اولیں سے نجات کے لیے مدد نہیں لی۔ ہاں میں آپ کے خونی فرشتوں سے چھپتا رہا ہوں۔ خصوصاً چار مہینے آپ کی ۱۵؍ماہ کی مدت میں۔ نہ اسلام کی عظمت الہامی اور نہ اسلامی توحید کی تعظیم سے اور نہ تثلیث میں کچھ تزلزل ہو کر ۔ ابنیت الوہیت میرے نزدیک صحیح ہے جو بوقت مباحثہ میں نے شرح کی تھی۔ باقی رہی یہ بات کہ میں نے پہلے جناب کے ساتھ کوئی قسم یا شرط باندھی تھی۔ اور نہ آئندہ باندھوں گا۔ اور نہ آپ کے روپیوں کا مجھے لالچ ہے۔ اور جنہوں نے آپ کے ساتھ بے ہودگی کی ہے اور جو آپ کے ساتھ کرتے ہیں۔ میں ان کے ساتھ شامل نہیں۔ یہ بھی جناب مرزا صاحب کو معلوم ہو کہ قریب ستر برس کے تو عمر اب میری ہے۔ پھر آئندہ سال بڑھانا جناب کے کیا معنی رکھتا ہے۔ کیا جناب کے خونی فرشتوں کو پہلے موقع میرے مارنے کا نہیں ملا۔ جو ایک سال مہلت اور طلب ہوتی ہے۔ مرزا صاحب! سچے خدا سے ڈرو۔ میں تو موت کے لیے تیار ہی بیٹھا ہوں۔ مگر آپ کو بھی مرنا ہے۔ میں آپ سے بدلہ کچھ نہیں چاہتا۔ مگر خدا سے آپ کے لیے خیر و عافیت کی دعا مانگتا ہوں۔ والسلام
عبد اللہ آتھم مقام فیروز پور ۱۷ ستمبر ۱۸۹۴ء اشاعتہ السنہ
نمبر ۱ تا ۸ جلد ۱۶ ص ۱۱۲ تا ۱۱۴
ڈپٹی آتھم صاحب کا خط آمدہ ۲۷ ستمبر ۱۸۹۴ء
جناب محسن بندہ جناب ملا محمد بخش صاحب مالک اخبار جعفر زٹلی لاہور۔ تسلیم آپ