کے خط کے جواب میں قلمی ہے۔ کہ میں اپنے ایمان مسیحی کی بابت مفصل اخبار نور افشاں وغیرہ میں اشتہار دے چکا ہوں۔ کہ میں سچے دل سے عیسائی جس طرح تھا اب تک اپنے ایمان پر قائم ہوں۔ اور ہرگز اسلام کی طرف ذرا بھی مائل نہیں ہوا نہ ظاہر، نہ باطن، تو اب فرمائیے۔ کہ اس سے زیادہ کیا کرسکتا ہوں۔ جو آدمی کچھ بھی عقل رکھتا ہو۔ اس سے صاف جان سکتا ہے۔ باقی رہا مرزا صاحب کا شرط لگانا کہ آتھم قسم کھا کر یہ بات کہہ دے۔ سو صاحب من! میرے مذہب میں تو قسم کھانا منع ہے۔ متی کی انجیل میں صاف لکھا ہے کہ تم ہرگز قسم مت کھائو۔ ہاں کی ہاں اور نہ کی نہ ہونی چاہیے۔
اور ہزار دو ہزار کی شرط لگانا تو ایک طرح کی جوے بازی ہے۔ میرے خیال اور میرے مذہب میں اس طرح کا لالچ بھی منع ہے۔ مرزا صاحب کی مرضی جو چاہیں کہتے جائیں۔ میں تو پہلے سے یہ دعا مانگتا تھا۔ اب بھی یہی دعا مانگتا ہوں کہ یا خدا تعالیٰ تو مرزا صاحب قادیانی پر رحم کر اور اس کو ہدایت کر، راہ راست پر کردے۔ اور اس کو صحت و تندرستی جسمی اور دماغی بخشے آمین۔ اس سے زیادہ سب کچھ فضول ہے۔ اور میں ایک ضعیف العمر آدمی قریب ستر سال کی عمر کا ہوں۔ آخر کہاں تک جیوں گا۔ کون جانتا ہے کہ کب خدا تعالیٰ بلالے۔ زیادہ نیاز آپ کا مشکور
عبد اللہ آتھم پنشنر اکسٹرا اسسٹنٹ از مقام فیروز پور۔
اشتہار
مرزا غلام احمد قادیانی کا دعویٰ ہے کہ میں محمدی ہوں۔ اور علماء اسلام کہتے ہیں کہ وہ مسلمان نہیں۔ کفر کا فتویٰ لگا کر اسلام سے خارج کرتے ہیں۔ اب ہم یہ کہتے ہیں کہ اگر مرزا صاحب مجمع عام میں ایک لقمہ خنزیر کے گوشت کا سب کے سامنے کھا کر کہیں۔ کہ میں مسلمان ہوں تو ہم یقین کریں گے کہ علماء اسلام کا فتویٰ غلط اور یہ درحقیقت مسلمان ہیں۔
اور اگر مرزا صاحب یہ نہیں کرسکتے تو وہ مسٹر آتھم صاحب کو بھی قسم کھانے سے معذور سمجھیں گے۔ کیونکہ جیسے قرآن کے حکم سے وہ سور کا گوشت نہیں کھاسکتے اسی طرح آتھم صاحب انجیل کے حکم سے قسم نہیں کھاسکتے۔ جب تک کہ کسی حاکم سے قسم پر مجبور نہ کرائے جائیں۔ عیسائی کو قسم کھانا جائز نہیں ہے اگر آتھم صاحب قسم کھاتے تو ثابت کر دیتے۔ کہ میرا عمل انجیل پر نہیں ہے۔ پس مرزا صاحب کو لازم ہے کہ ہماری اس دعوت کو قبول کرکے اس شرط کو بموجب اپنے تئیں محمدی ثابت کریں۔ ورنہ بار بار قسم کے اشتہار آتھم صاحب کے نام پر دینے بند کردیں۔
اور مرزا صاحب گویا الہام سے یہ بھی کہتے ہیں۔ کہ آتھم صاحب ہرگز قسم نہ کھائیں