کیا۔ اب بھی ان کو اختیار ہے۔ جو چاہیں تاویل کریں۔ کون کسی کو روک سکتا ہے۔ میں دل سے اور ظاہراً پہلے بھی عیسائی تھا۔ اب بھی عیسائی ہوں۔ اور خدا کا شکر کرتا ہوں۔ کہ جب اس امرت سر میں جلسہ عیسائی بھائیوں میں شامل ہونے کو آیا تھا۔ تو وہاں بعض اشخاص نے تو ظاہر کر دیا تھا۔ کہ آتھم مر گیا ہے۔ نہیں آئے گا۔ اور جب مجھے ریلوے پلیٹ فارم پر دیکھا گیا۔ تو کہنے لگے۔ انگریز بڑے حکمت والے ہیں۔ ربڑ کے آدمی میں کل لگا دی۔ ایسی ایسی باتوں کا جواب صرف خاموشی ہے۔ میں راضی خوشی تندرست ہوں۔
اور ویسے ایک دن مرنا تو ضرور ہے زندگی موت صرف رب العالمین کے ہاتھ میں ہے۔ اب میری عمر ۶۸ برس سے زیادہ ہے۔
نور افشاں لدھیانہ ۱۴ ستمبر ۱۸۹۴ء
اس مقام پر اس بات کا ذکر کرنا خالی از لطف نہ ہوگا کہ امرتسر میں ڈپٹی صاحب (عبد اللہ آتھم) کے قتل کرنے کے لیے تین حملہ کیے گئے۔ چونکہ ان کا امرتسر میں رہنا باعث اندیشہ تھا۔ اس لیے ڈپٹی صاحب ۳۰ اپریل کو امرتسر سے جنڈیالہ میں تشریف لے گئے اور وہاں سے لدھیانہ کو چلے گئے۔ جہاں ایک شخص نے برچھی سے ڈپٹی صاحب کا کام تمام کرنا چاہتا تھا۔ لدھیانہ میں کچھ دن رہ کر ڈپٹی صاحب فیروزپور میں رونق افروز ہوئے۔ اس جگہ ان پر چار حملے ہوئے۔ بندوق کی بھی دو دفعہ گولی چلی۔ ایک دفعہ ایک شخص گنڈا سالئے ہوئے نظر آیا۔ دو دفعہ تین تین آدمی رات کے وقت قریب کے کھیتوں میں چھپے ہوئے معلوم ہوئے۔ جو پولیس کے تعاقب کرنے پر مفرور ہوگئے اور انہی میں سے ایک دفعہ رات کے وقت تین آدمی کوٹھی کا دروازہ توڑ رہے تھے۔ چونکہ ایسے وقت میں زیادہ حفاظت کی ضرورت تھی۔ (جو پیشگوئی کا آخری روز تھا) اس لیے ڈاکٹر کلارک صاحب ۵؍ستمبر۱۸۹۴ء کو امرتسر سے فیروز پور تشریف لے گئے رات کے وقت حسب معمول پہرہ رہا۔
مسٹر عبد اللہ آتھم کا امرتسر کا آنا
(مسٹر آتھم) میرا خیال تھا کہ شاید میں مارا ہی جائوں۔ لیکن اس پر بھی کلیسأ خدا کی کلام کو یاد رکھے۔ جو موسیٰ کی معرفت ہوا۔ کہ اگر تمہارے درمیان جھوٹا نبی آئے اور نشان مقرر کرے اور اس کے کہنے کے بموجب ہو۔ تو خبردار تم اس کے پیچھے نہ جاناکیونکہ خداوند تمہارا تم کو آزماتا ہے۔
اور یہ جو مہینے گزرے ہیں۔ اس کی بابت میں نے دو باتیں دیکھیں۔ جن سے میری