اس مباحثہ میں کوئی مسلمان جس کو محمدی بمعنی امت محمد رسولؐ کہا جائے۔ عیسائیوں کے مقابل نہ تھا۔ تماشائی ہونا اور بات ہے۔
یوں تو ہندو بھی شریک ہوں گے۔ افسوس ہے کہ قادیانی کا خالہ زاد سالہ جو تھوڑے دنوں سے پرانے مسیحیوں میں ملا ہے۔ اس جھگڑے کا نام مسیحیوں اور محمدیوں کا جنگ مقدس رکھے۔ یہ خود نیا مسیحی اور مسلمانوں کا فتویٰ اپنے نئے مسیح کے حق میں دیکھ چکا تھا۔ اور سمجھ میں نہیں آتا۔ کہ اس نے کلارک صاحب کا اشتہار تو دیکھا ہوگا جو اہل جنڈیالہ کے لیے مشتہر ہوچکا ہے۔ وغیرہ وغیرہ (عام مسلمانان لدھیانہ)
فتح اسلام شکست قادیانی ناکام
ارے او بیوفا غدار مرزا
ارے پر فتنہ و مکار مرزا
مسیح کاذب مہدی کذاب
سراپا جھوٹ کی آثار مرزا
ترا چھوٹا سا منہ اتنی بڑی بات
نہ ہو کیونکر ذلیل و خوار مرزا
پڑے گی ہر طرف سے تجھ پہ لعنت
بس اب ہر وقت رہ تیار مرزا
ذرا خوش ہو کے گھر جا کر دکھانا
گلے میں لعنتوں کا ہار مرزا
خفا مت ہو کہ عبدالحق سے تو نے
طلب کی تھی یہی پھٹکار مرزا
نشانہ کیسا اس تیر دعا کا
ہوا تیرے جگر کے پار مرزا
تجھے روتے ہی گزرے پندرہ ماہ
ہوئی حالت یہ تیری زار مرزارگ جان کاٹنے آیا تھا تیری
ستمبر کی چٹھی کا تار مرزا
ولے پھر بھی نہ مرنے پایا آتھم
وہ بھی پہلے سے تھے تیار مرزا
کہاں ہے سیالکوٹی واحد العین
تیرا مداح کج رفتار مرزا
کہاں ہے تیرا نورالدین و احسن
فصیح و حامد و طرار مرزا
مصیبت ہر طرف سے تجھ پہ آئی
ابھی ہے وقت استغفار مرزا
مسٹر عبد اللہ آتھم کے ایک خط کا خلاصہ مندرجہ اخبار وفا دار لاہور۔ ۱۵ ستمبر ۱۸۹۴ء
میں خدا کے فضل سے تندرست ہوں … میری نسبت اور دیگر صاحباں کی موت کی پیشین گوئی جو ہے۔ اسے شروع کرکے آج تک جو کچھ گزری۔ آپ کو معلوم ہے۔ اب مرزا صاحب کہتے ہیں کہ آتھم نے دل میں اسلام قبول کرلیا ہے۔ اس لیے نہیں مرا۔ خیر ان کو اختیار ہے جو چاہیں۔ سو لکھیں۔ جب انہوں نے میرے مرنے کی بابت جو چاہا سو کیا اور ان کو خدا نے جھوٹا