بزرگ کو بحث کے لیے پیش کرتے ہو جس کو ایک محمدیؐ شخص بھی تصور کرنا مشکل ہے۔ علمائے اسلام نے اس کو اسلام سے خارج کر رکھا ہے لیکن یہ بن بلایا مہمان ان احمق مسلمانوں کے سر ہی چڑھ گیا اور جلسہ مباحثہ میں مان نہ مان میں تیرا مہمان اپنی خود کلامی و خود غرضی سے جو اس کے خمیر میں ہے یہاں بھی وہی اس کے مدنظر تھی کہ کوئی ایسی تدبیر کروں جس سے میری مسیحیت سرسبز ہو۔ مولوی رحمت اللہ صاحب اور پادری فنڈز صاحب کے مباحثہ میں کلی مدارج طے ہوچکے تھے نئی بات یہ تھی کہ کسی طرح مسیحیت کا سکہ جمے چنانچہ فریق ثانی کا مناظر عبد اللہ آتھم جو ایک سن رسیدہ پینشن یافتہ آدمی تھا ایام مناظرہ میں اس کو بیمار دیکھ کر کذاب قادیانی نے یہ زٹل ہانک دی کہ پندرہ (۱۵) مہینے تک یہ شخص مر جائے گا۔ اور اس کے بعد کئی کتابوں میں اس کی تشہیر خوب واضح طور پر کردی۔
اور اس کے نہ مرنے کی صورت میں اپنے لیے سخت سزائیں جو مخالف چاہئیں منظور کیں میرے گلے میں رسہ ڈالا جائے وغیرہ وغیرہ۔
ایک ضعیف العمر آدمی کو ایسی دھمکیاں سخت برا اثر پہنچاتی ہیں۔
ادھر مسلمانوں سے مباہلہ کی ٹھہرائی کہ مجھے عیسیٰ و مہدی و نبی و رسول مبشر کیوں نہیں مانتے۔
اہل اسلام میں بھی ایک مرد صالح عبد الحق (عافاہ اللہ) غزنوی مقیم امرتسر وہیں اٹھا اور جناب باری میں قادیانی کے مقابل آ کر اس عجزو نیاز سے جھوٹے پر لعنت کی کہ اہل بصیرت کی نظر میں جھوٹے پر اس کا اثر اسی وقت نمایاں تھا اور اس کی قبولیت کے آثار ایک جہان دیکھ رہا ہے۔ قادیانی کو یہ روزِ بد ایسی سخت ذلت ساتھ لے کر پیش آگیا جو اس نے اپنی لعنت میں جھوٹے کے لیے اپنے منہ سے کہی تھی۔
خیر آج ۶ تاریخ کا دن ہے اور آتھم مذکور چنگا بھلا زندہ موجود ہے۔
کوئی شخص بن آئی نہیں مرسکتا خواہ اپنے ہاتھ سے اپنے مرنے کی کوشش کرے پھر کسی کی تدابیر علمی عملی، سحر، مسمریزم و عمل الترب وغیرہ سے کیا ہوسکتا ہے۔
لدھیانہ کے پرانے مسیحی پادریوں نے یہاں کے مرزائی نئے مسیحوں کو خوب شرمندہ کیا۔ اور ان کی روزمرہ کی لن ترانیوں پر خوب فضیحت کی کہ وہ منہ چھپا کر اپنے اندر جاگھسے۔ یہ تو ان کو حق تھا۔ جو کچھ چاہتے کرتے۔ کیونکہ قادیانی اپنے لیے سب سزائیں منظور کرچکا ہے اس کے چیلے بھی اس کے مستحق ہیں۔ پرانے مسیحیوں نے بہت کچھ بے جا الفاظ بحق اسلام بھی اسی خوشی میں آ کر لکھ مارے۔ جو ان کے بے جا تعصب پر دلالت کرتے ہیں۔