نے ایک لمبی فہرست بیان فرمائی ہے ٹھہرنا و مستفیض ہونا نصیب نہیں ہوا اور تکفین کے مال کی طرح کورے صاف نکل کر چلے آئے اور آخر کار ایسی دلدل میں آ کر پھنس گئے جس سے رہائی کے لیے اگر صدق دل سے انابت الی اللہ توبہ و استغفار نہ کرے گا تو عاقبت محمود معرض خطر میں ہے۔
مرزائی… پھر وہ (مولوی صاحب) آپ کے خیال میں دیوانہ ہیں جو گھر بار خانماں کو چھوڑ کر چلے آئے اور یہاں دیدہ و دانستہ تکلیف گوارا کر رہے ہیں۔
سنی مسلمان… مولوی صاحب کی دیوانگی خانماں چھوڑ کر مرزا صاحب کے پاس رہنا کچے کوٹھوں میں بسر کرنا کچھ نیا نہیں۔ اول تو ان کا خانماں عیال اکثر سب کے سب ان کے ساتھ ہیں۔ دوم مرزا صاحب اور مولوی صاحب کا مذاق ملتا ہے کیونکہ مولوی صاحب سے پہلے ہی باتباع یا بموافقت سر سید نیچری، مسیح علیہ السلام کے مرنے مارنے اور ان کی قبر کھودنے کا خبط موجود تھا۔ اب ان کو ایک مددگار وہم خیال مل گیا بلکہ اکثر تو اس بات کے قائل ہیں کہ یہ چھیڑ انہوں نے ہی چھیڑی تھی اور مرزا صاحب نے اپنے مفید مطلب سمجھ کر اس کی تکمیل کا بیڑا اٹھا لیا اور شاید کوئی اور تعلقات بھی باعث ہوں۔ اس لیے وہ مرزا صاحب کے گرویدہ ہیں اسی طرح بموجب عام قاعدہ کے دوسرے ہزاروں بلکہ لاکھوں مرید اپنے پیروں پر باعث ہم مذاقی و ہم جنسی کے فداہیں یہ کچھ تعجب و اچنبہ نہیں۔
کندہم جنس باہم جنس پرواز
کبوتر با کبوتر باز باباز
مولوی صاحب کا ڈیرہ لگانا تو ذرا ہی تعجب نہیں۔ ان کی طبیعت و عادت قدیم سے ہی ایسی ہے، کیا مرزا صاحب کو یاد یا خیال نہیں رہا کہ عمر گزشتہ میں انہوں نے کس کس جگہ ڈیرہ نہیں لگایا۔ رامپور میں، لکھنو میں، حکیم علی حسین صاحب کی خدمت میں، مکہ معظمہ زاد اللہ شرفہا میں، مولوی رحمت اللہ صاحب و مولوی محمد صاحب کی خدمت مدینہ منورہ میں، شاہ عبد الغنی صاحب مجددی نقشبندی رحمتہ اللہ علیہ کی خدمت میں تھے کہ سرسید آنجہانی کے بھی جو مرزا صاحب کے دعاوی کے کبھی موافق نہیں ہوئے محب و معتقد رہ کر یہ صرف خود ہی ان کو مضامین ضروریہ سے امداد دیتے رہے بلکہ دوسروں کو بھی ان کی موافقت و امداد کی دعوت و ہدایت امدادِ اسلام سمجھ کر کرتے رہے وغیرہ وغیرہ ان کے علاوہ دیگر مقامات و اشخاص بھی ہیں جن کا ذکر مولوی صاحب اپنے خط بجانب الٰہی بخش صاحب میں کیا ہے۔
غرض صرف حسن عقیدت سے سب کچھ آرام و آسائش رونق آمدنی وغیرہ فراموش