باربرداری و طوطے کی طرح حفظ کرنے اور رٹنے سے کیا فائدہ؟ بقول مولوی روم۔
علم گر برجان زند یارے بود
علم گر برتن زند مارے بود
جان جملہ علمہا دین است زین
کہ بدانی من کیم در لوحِ این
مرزائی… فقط یہی تو نہیں کہ کتابوں کا ذخیرہ ان کا فخر کا باعث ہے ان کا علم باعمل اور معارف کا ذخیرہ بھی تو ہے جس کی نسبت حضرت اقدس نے خود لکھا ہے۔
سنی مسلمان… معارف کا ذخیرہ جو مولوی صاحب میں مرزا صاحب بتلاتے ہیں وہ مرزا صاحب ہی کو نظر آتا ہوگا اور وہ ہی اس ذخیرہ سے فیض یاب ہوتے ہوں گے۔ یا خود مولوی صاحب اس کے ذائقہ اور سرور میں محظوظ و مسرور رہتے ہوں گے۔ دوسروں پر جو مولوی صاحب نے اس عرصہ ددراز میں بطور مشتے نمونہ ازخروارے ذخیرہ معارف منتشر فرمایا ہے اس میں سے تو یہی نکلا و ظاہر ہوا ہے۔
۱… کہ مولوی صاحب خط مندرجہ ’’خلاف بیانی‘‘ میں دریافت کرتے ہیں کہ دو ملہمون کے مخالف الہامات میں کس میعار سے ہم فیصلہ کریں گویا ان کو اب تک یہ معلوم ہی نہیں کہ اسلام میں کتاب و سنت ایسے کامل اکمل میعار ہیں جن سے حق و باطل صحیح و غلط درست و کج خوب کما حقہ پرکھا جاسکتا ہے۔ خواہ کوئی کسی بھیس میں روپ بدل مدعی الہام ووحی ونبوت ورسالت وغیرہ ہوکر آوے۔
۲… خوبی قسمت سے فہم و علم بائبل میں جو ان کو کمال ہے وہ یہ ہے کہ بتوں و مندروں کے پجاری و سچے نبی میں ان کو امتیاز نہیں اور ایک دوسرے سے فرق نہیں کرسکتے۔ پھر طرفہ یہ کہ چار سو پجاریوں کو سچے کہہ کر پھر ان کی پیشگوئی کو جھوٹا لکھیں تو جناب الٰہی کی شان میں کوئی بٹہ نہیں لگتا۔ لیکن اگر مرزا صاحب کے مخالف کسی کو سچا الہام ہو تو نعوذ باللہ جناب الٰہی کی شان میں بٹہ لگتا ہے اور اسلام کا سر چور ہوتا ہے۔ جیسا خط مندرجہ رسالہ خلاف بیانی میں لکھا ہے۔ مولوی صاحب کا سب ملہمین راشدین سالکین تربیت یافتہ حسب سنت رب العالمین و طریقہ سید الاولین و آخرین کو چھوڑ کر مرزا صاحب کی بیعت میں داخل ہونا مولوی صاحب کے اسی قول صادق کے موافق معلوم ہوتا ہے جو وہ خود فرمایا کرتے ہیں کہ بعض پنہانی قصور و گناہ ایسے ہوتے ہیں کہ مرتکب کو کسی صادق کی صحبت میں ٹھہرنے نہیں دیتے۔ سو نہ معلوم (غافر الذنوب معاف فرمائے) کہ کس نہانی جرم و قصور کی پاداش میں مولوی صاحب کو باوجود بہت سے اولیاء اللہ صادقین مستغرقین ذکر اللہ تعالیٰ صحبت کیمیا خاصیت میسر آچکی ہے ان کو ان بزرگان عارفان باللہ کی خدمت میں جس کی انہوں