و کمال کے بارہ میں کسی قسم کے حسن ظن کی گنجائش باقی نہیں چھوڑی۔ بتوں اور مندروں کے بچاریوں کو نعوذ باللہ سچے بھی کہا اور پھر اپنے امام صاحب کی حمایت میں ان کی پیشگوئیوں کو جھٹلایا ہے اور ایسے بدیہی البطلان وغلط حوالہ جات سے کام لیا ہے کہ الامان، مشن اسکول کے طالب علم بھی ان کی تورات دانی اور کج فہمی پر حیران ہیں اور مولوی صاحب نے باوجود اپنی اس سقیم الحالی کے الٹا قاضی صاحب کو خلاف دیانت و امانت دھوکا دہ و ٹھوکر کھانے والا کہہ کر ان کی (اِنَّہٗ مِنْ سُلِیْمَانَ)کا مصداق نبی کو (وہ آیت قرآن مجید قاضی صاحب نے اپنی کتاب کے سرورق پر تبرکاً لکھی ہے۔) محل طعن قرار دیا ہے بایں وجہ کہ وہ سکھ ریاست میں نوکر ہیں۔ حالانکہ مذہبی آزادی میں اس ریاست جیسی کوئی دوسری ریاست نہیں۔ کیونکہ علاوہ انتظامی اراکین مسلمان ہونے کے اس کا رئیس مسجد کا بانی اور خادم ہے وہاں تعطیل کا دن بھی مقرر ہے۔ لیکن مولوی صاحب کی فہم پر کچھ ایسا سرپوش آیا کہ انہوں نے اس تحریر کے وقت اتنا نہ سوچا کہ ہم بمقابلہ قاضی صاحب حق پوشی کرکے اور ایسی ریاست میں سالہا سال رہ کے جہاں دینی آزادی کا نام و نشان تک نہ تھا۔ کیونکر حق نما اور نور الدین بنے رہے۔ سبحان اللہ نور امامت نے کیسا انعکاس کیا ہے کہ صاف جگہ پر تو تنکے نظر آتے ہیں اور جہاں شتہیر اور لٹھوں کے ڈھیر لگے ہیں ان کی خبر ہی نہیں۔
مرزائی… یہ سب افتراء ہے حضرت حکیم الامت کے پاس ایک بڑا کتب خانہ ہے تمام جہان کی تفاسیر اور دیگر علوم کی کتب ہیں ان کی جانب ایسا گمان ہوسکتا ہے۔
سنی مسلمان… اوّل تو تمام جہان کی تفاسیر رکھنا خلاف واقعہ امر ہے جو مبالغہ سے مرزا صاحب نے ان کی تعریف میں لکھ دیا ہے جس سے وہی خوش ہوں گے۔ پھر اگر کوئی تمام جہان کی تفسیریں اور کتابیں درحقیقت اپنے پاس بھی رکھے تو کیا مجرد رکھنے ہی سے وہ خدا رسیدہ، معارف و حقیقت شناس، لطائف و نکتہ رس، معانی سج، حقائق و رموز دان، عالم باللہ، ولی الرحمن روحانی سنت مہاتما فوق العادت خارق اعجازی شخص بلاعمل ہی بن جاتا ہے کہ مرزا صاحب نے ان کی تفاسیر داری پر ایسا فخر اور ناز کیا ہے اگر ایسا ہے تو یہ آیت کریمہ قرآن مجید (مَثَلُ الَّذِیْنَ حُمِّلُوْ التَوَرَاۃَ ثُمَّ لَمْ یَحْمِلُوْھَا کَمَثَلِ الْحِمَارِ یَحْمِلُ اَسْفَاراً الخ) کے کیا معنے ہیں یعنی جن لوگوں پر توریت اٹھوائی گی (دی گئی) پھر انہوں نے اس کو برداشت نہیں کیا (یعنے اس پر کاربند نہ ہوئے) ان کی مثال بعینہٖ گدھے کی مثال ہے جس پر کتابیں لدی ہوئی ہوں۔ اور اس کا شانِ نزول کیا ہے کتاب داری تو تب ہی قابل قدر ہوتی ہے کہ جب تعلیم احکام و اطاعت خیر الانام میں اس کا پیروکار ہوکر اپنی صحت فہم، درایت حقیقت وحقیقت ذاتی کا علمی اور عملی نمونہ دکھائے۔ ورنہ حمار کی طرح