اثر پڑتا ہے۔
محمد بخش… جب مقدمہ دائر تھا۔ شیخ جان محمد صاحب نے مرزا صاحب کے اشتہارات اجابت دعا کے دیکھ کر مجھ کو بھیجا تھا اور ضرور دعاء کی درخواست کی تھی مگر کوئی جواب شافی سوائے معمولی الفاظ کے نہیں دیا تھا۔
جان محمد… ’’وہ خط تو گم ہوگیا مگر غالباً یہی الفاظ تھے یا اس کے قریب قریب فضل ہو جائے گا دعا کی جاتی ہے۔‘‘ (ایضاً) اس اثناء میں مرزا صاحب کا ایک حواری آ موجود ہوا۔ السلام علیکم۔
شیخ صاحب… وعلیکم السلام آئیے تشریف لائیے مزاج کیسے تشریف لائے۔
حواری… حضرت اقدس جناب امام ہمام مرزا صاحب نے آپ کو سلام علیکم کہا ہے اور فرمایاہے جس معاملہ میں رات گفتگو تھی وہ تحریر بھیج دیں۔
شیخ صاحب… حیران اور ششدر ہو کر کون سی تحریر اچھا وہ پیشگوئی کی بارہ میں۔
حواری… جی ہاں وہی۔
شیخ صاحب… وہ خطوط تو گم ہوگئے اور خطوط کی صحیح عبارات یاد نہیں میں کیا لکھ دوں۔
حواری… آپ کا کیا ہرج ہے جیسا حضرت اقدس صاحب فرماتے ہیں وہ لکھ دیجیے کسی فیصلہ میں تو پیش ہی نہیں کیا جانا۔ جو کسی کے مال یا عزت یا جان پر کچھ اثر پہنچے۔
شیخ صاحب… بیشک کسی مال و جان پر تو اس کا اثر نہیں پہنچتا مگر ایمان پر تو ایک جہاں کے پہنچے گا۔
حواری… کچھ بات تو ہے نہیں آخر دنیا میں رعایت و مروت بھی کوئی چیز ہے۔
شیخ صاحب… نہیں صاحب مجھ ہی سے یہ نہیں ہوسکتا آخر ایک دن خدا کے ساتھ معاملہ پڑنا ہے۔ وہ علیم بذات الصدور ہے اس کو کیا جواب دوں گا۔ جس قدر انسان میری تحریر پڑھ کر گمراہ ہوں گے وہ سب میرے ہی نامہ اعمال میں درج ہوں گے۔
حواری… بے نیل و مرام واپس آئے اور مفصل حال حضور اقدس میں عرض کیا۔مرزا صاحب… (اس قدر تاب یارائے ضبط کہاں غصہ میں لال ہوگئے سروپا کی خبر نہ رہی فوراً اصل خطوط شیخ صاحب سے طلب کیے گئے اور جواب نفی میں سن کر سمندر غیظ کو ایک اور تازیانہ ہوا۔ پھر کیا تھا منہ میں کف بھر آئی۔ زمین پر پائوں مار کر) یہ کیسی ناخدا ترسی ہے کہ مجالس میں افتراء کی سخت تہمت لگا کر دل کو دکھایا جائے خیر اب ہم بطریق تنزل ایک آسان فیصلہ اپنے صدق اور کذب کے بارہ میں کرتے ہیں اور وہ یہ ہے۔