تھیں۔ مگر یاد رکھنا چاہیے یہ عمل ایسا قدر کے لائق نہیں جیسا کہ عوام الناس اس کو خیال کرتے ہیں اگر یہ عاجز (مرزا) اس عمل کو مکروہ اور قابل نفرت نہ سمجھتا تو خدا تعالیٰ کے فضل و توفیق سے امید قوی رکھتا تھا کہ ان عجوبہ نمائیوں میں حضرت ابن مریم سے کم نہ رہتا۔‘‘
توہین حضرت عیسیٰ علیہ السلام
اینکم منم کہ حسب بشارات آمدم
عیسیٰ کجاست تابہ نہد پایہ منبرم
(ازالہ اوہام ص۱۵۸، خزائن ج۳ ص۱۸۰)
(توضیح المرام ص۲۱،۲۲، خزائن ج۳ ص۶۲) ’’روح القدس، روح الامین، شدید القویٰ، ذوالافق الاعلیٰ۔ جن کا ذکر شروع میں ہے انسان کی نیک صفت ہے۔ جو خدا کی محبت یا اس کے محبوب انسان کی محبت باہم ملتے جلتے متولد ہوتی ہے ان دونوں محبتوں اور ان سے متولد نتیجہ (روح القدس) کا مجموعہ پاک تثلیث ہے۔‘‘
(ابن اللہ ہونے کا دعویٰ، حقیقت الوحی ص۸۶، خزائن ج۲۲ ص۸۹) ’’اور اس عاجز (مرزا صاحب) کا مقام ایسا ہے جس کو استعارہ کے طور پر ابنیت کے لفظ سے تعبیر کرسکتے ہیں۔‘‘
دعوائے مسیح موعود… ’’مسیح موعود میں ہوں جس کی بشارت حدیثوں میں وارد ہے نہ عیسیٰ بن مریم اسرائیلی کی۔‘‘ (فتح الاسلام ص ۱۰، خزائن ج۳ ص۷) ’’شکر کے سجدے بجا لائو کہ وہ زمانہ جس کا انتظار کرتے کرتے تمہارے بزرگ آباء گزر گئے اور بے شمار روحیں اس کے شوق میں سفر کر گئیں۔ وہ وقت تم نے پالیا۔‘‘ (فتح اسلام ص۱۵، خزائن ج۳ ص۱۰ حاشیہ) ’’مسیح جو آنے والا تھا یہی ہے چاہو تو قبول کرو۔‘‘ (ازالہ ص۵۶۱، خزائن ج۳ ص۴۰۲) ’’میرے پر خاص الہام سے ظاہر کیا گیا ہے کہ مسیح ابن مریم فوت ہوچکا ہے اور اس کے رنگ میں ہو کر وعدہ کے موافق تو آیا ہے۔ وَکَانَ وعدُ اللّٰہِ مَفْعُوْلاً!
آنے والے مسیح کے اوصاف جو احادیث میں وارد ہیں اور ان کی تاویل۔ (ازالہ اوہام ص۷۳، خزائن ج۳ ص۱۳۸) ’’گویا یہ فقرہ جو اللہ جل شانہٗ نے الہام کے طور پر اس عاجز کے دل پر القا کیا ہے کہ انا انزلناہ قریباً من القادیان۔ اس کی تفسیر یہ ہے کہ انا انزلنا قرین دمشق بطرف شرقی عند المنارۃ البضائ!کیونکہ اس عاجز کی سکونتی جگہ قادیان کے شرقی کنارہ پر ہے منارہ کے پاس۔ پس الہام الٰہی کا یہ فقرہ کہ کان وعد اللہ مفعولاً! اس تاویل ہے۔ پوری پوری تطبیق کہا کہ یہ پیشگوئی واقعی طور پر پوری ہو جاتی ہے۔‘‘ (ازالہ اوہام ص۲۱۹، خزائن ج۳ ص۲۰۹) زر و کپڑوں کے یہ معنے ہیں کہ اس کی صحت اچھی نہ ہوگی (آپ ہمیشہ بیمار جو رہتے ہیں)‘‘