متقی ان کو نہ دے تو ہے شقی
جو شقی دے ان کو وہ ہے متقی
ہیں امیروں سے بڑھاتے میل۶؎ جول
کرکے تعریفیں اڑا لیتے ہیں مول
جو کوئی دے ہاتھ کر دیں گے دراز
اس قدر ہے ان کی دل میں حرص و آز
لیتے دم کرتے نہیں چون و چرا
وہ روا ہو مال یا ہو ناروا
ہیں امیر اور لیتے ہیں صدقہ زکوٰۃ
دینداری کی نہیں ہے کوئی بات
علم ہے دنیا کمانے کے لیے
دولت دنیا ہے کھانے کے لیے
دل میں اپنے مستفعل ہوتے نہیں
ہنستے۷؎ رہتے ہیں کبھی روتے نہیں
غیظ میں بدمست ہو جاتے ہیں وہ
اپنی چالاکی پہ اتراتے ہیں وہ
نیک رکھتے ہیں گمان وہ نفس پرابلہی کا ہے یہی ان پر اثر
اپنی تعریفوں سے بھرتے ہیں کتاب
آیت قرآن ہے گویا ان کی خواب
اگر کوئی روکے تو ہوتے ہیں خفا
دشمن اپنا جانتے ہیں برملا
سینکڑوں کرتے ہیں گو وعدہ خلاف
کم نہیں ہوئی مگر لاف و گزاف
ہے اسی دن کے لیے منطق پڑھی
ہے اسی تدبیر سے عزت بڑھی
بات کو ہوتی ہے گنجائش بہت
حیلہ سازی میں ہے آسائش بہت
دیگر
مہدی وقت ہے کوئی مشہور
کوئی بنتا ہے عیسیٰ دوراں
نہ عیاں اس میں عیسوی برکت
نہ ہدایت کا اس میں نام و نشان
نیک سب اٹھ گئے زمانہ سے
ما بقی میں نہیں رہی ہے جاں
حب دنیا نے گھیر رکھا ہے
ہے بہت ہی ضعیف اب ایماں
بدعتوں کی بہت ترقی ہے
حد سے باہر ہے کفر اور عصیاں
نہیں آتا نظر کہیں اخلاص
ہیں دکھائووں میں لوگ سرگرداںحب مولیٰ جہان سے ہے معدوم
حرص دنیا میں پھنس گئے انساں
نہ بچا اس سے مولوی کوئی
نہ کسی اہل دل کو اس سے اماں
نہ فقیروں میں صبر باقی ہے
نہ امیروں میں شکر کا ہے نشاں
لذت نفس میں وہ ہیں سرگرم
آج کل ہیں جو پیشوائے جہاں
مرغ بریان۸؎ کا شوق ہے ان کو
ہیں ملائک خصال جو انسان