کچھ نہیں تفتیش سے ان کو غرض
حرص کا ہے اس قدر ان کو مرض
آج کل مکار ایسے پیرہیں
ان کے حال وقال بے تاثیر ہیں
کچھ نہ صحبت میں اثر نے بات میں
ڈالتے ہیں ہم کو وہ آفات میں
رہ گئے دنیا میں اب ظاہر پرست
دن بدن میں دین میں ہم لوگ پست
اور کہیں تصنیف کے ہیں اشتہار
یہ ہی لوگوں نے کیا ہے روزگار
پیشگی۴؎ قیمت مگر لیتے ہیں وہ
خلق کو اس طرح دم دیتے ہیں وہ
بعض کھا جاتے ہیں قیمت اس کی سب
اس طرح پڑ گیا یارو غضب
قیمتیں کھا کر نہیں لیتے ڈکار
جیسے آتا تھا کہیں ان کا ادھار
جو کوئی مانگے وہ بے ایمان ہے
وہ بڑا ملعون اور شیطان ہے
بدگمانی کا اسے آزار ہے
سارے بدبختوں کا وہ سردار ہے
ایک تو پلے سے اس نے زر دیادوسرا بدنام اپنے کو کیا
کھا گیا جو مال وہ اچھا رہا
کچھ گھٹا اس کا نہ ہرگز اتقا
چیز کی اپنے کرے تعریف جو
جانتا اس کو نہ تم مردں کو
مشک کی خوشبو تو خود اڑتی ہے یار
مالک دکان نہ دے گو اشتہار
آم اور حنظل تو ہوتے ہیں جدا
جوز جانے ہے وہ اندھا عقل کا
آج دنیا مکر سے لبریز ہے
اب دغا بازی پہ ہر ایک تیز ہے
کہہ کے میٹھا دیتے ہیں کھٹا دہی
کچھ نہیں پرتیت دنیا کی رہی
بدمعاش اب نیک از حد بن گئے
بو مسلم آج احمد۵؎ بن گئے
عیسیٰ دوران بنے دجال ہیں
ہر طرف مارے انہوں نے جال ہیں
ظاہر افعال ان کے نیک ہیں
سارے عالم میں وہ گویا ایک ہیں
عالم و صوفی ہیں اور شب خیز ہیں
مال پر لوگوں کے دندان تیز ہیں
ہر طرح سے مال وہ ہیں نوچتے
ہیں یہی تدبیر ہر دم سوچتے
جس طرح ہو مال کچھ کھا جائیےکچھ نیا اب شعبدہ دکھلائیے
عقل کا اندھا کوئی ہووے مرید
گانٹھ کا پورا کوئی ہووے مرید
ہو کوئی کیسا ہی گرچہ بدمعاش
میوہ زر کی وہ دیدے ان کو کاش
پھر تو وہ مقبول رحمان ہے ضرور
ان کے دل کو اس نے پہنچایا سرور