نسواں تو سلف سے ناقص العقل شمار کیا گیا ہے مگر یہ مرددیشعور صاحب تجربہ جہاندیدہ ہو کر عورتوں کے ہم خیال ہوگئے۔ ہم کو امید تھی کہ وہ اپنی بیٹی کو سمجھا بجھا کر اس کی رنجش کو دور ایسے بگڑے کہ جھٹ ایک بڑی نظم لکھ ماری اگر یہ نظم کسی ہمارے دشمن کے ہاتھ لگ جائے اور ضرور لگے گی اور غالباً ان کے پاس پہنچ گئی ہوگی۔
اگر یہ شیخ بٹالوی کے ہاتھ چڑھ گئی تو غضب ہوگیا وہ فوراً اپنے رسالہ اشاعۃ السنہ میں شائع کرکے مشتہر کر دے گا۔
مثنوی در حالات مکاری زمانہ، من نتائج افکار میر صاحب، خسر ثانی حضرت مسیح زمان مہدی دوران مرزا غلام احمد صاحب قادیانی۔
بعد ازیں یہ عرض ہے اے مسلمین
آج دنیا میں کہیں تقویٰ نہیں
ہیں دغا میں آج کل سرگرم لوگ
سینکڑوں دنیا میں اب پھیلے ہیں ردگ
ہیں ڈولوں کی کسی جا اشتہار
کھلے گل لوگوں کو دیتے ہیں وہ خار
شہد کہتے ہیں مگر دیتے ہیں سم
جاہلوں کو رات دن دیتے ہیں دم
ظاہری اور باطنی دکان دارخلق کو دھوکہ میں کرتے ہیں شکار
حافظ و حاجی بہت پھرتے ہیں یاں
حال ہے جن کا زمانہ پر عیان
قبر کا کوئی مجاور ہے بنا
ہے کوئی زائر بنا اجمیر کا
ٹڈی دل کی طرح نکلے ہیں فقیر
مارے مارے پھرتے ہیں حضرات پیر
ہے کہیں نوٹس بزرگی کا لگا
آئو لوگو ہم پر ہے فضل خدا
ہو ہمارے فضل میں تم بھی شریک
ہم تمہیں دیں فیض تم دو ہم کو بھیک
مال و دولت اور شے تم پائو گے
گر بجا خدمت ہماری لائو گے
مال جو دے وہ۱؎ مرید خاص ہے
اس کے دل میں بالخصوص اخلاص ہے
جو نہ دے کچھ مال وہ کیسا مرید
شمر اس کو جان لویا ہے یزید
ہے مریدی واسطے پیسوں کی اب
ہائے دنیا میں پڑا ہے یہ غضب
ہر گھڑی ہے مالداروں کی تلاش۲؎
تاکہ حاصل ہو کہیں وجہ معاش
کوئی مل جائے جو دولت کا سبب
ایک دم میں ہوں دلدّر پاک سب
قرض سے اک دفعہ ہو جائے نجاتگو ملے صدقہ کہ مل جائے زکوٰۃ
ہو یتیموں ہی کا یا رانڈوں کا ہو
رنڈیوں۳؎ کا مال یا بہانڈوں کا ہو