نفس مرض اور شدت مرض یہاں ان کے اپنے قول سے مختلف اوقات میں ہوئی۔ ممکن ہے یہ بھی مرزائی نبوت کا کرشمہ ہو۔ سیاہ کو سفید کہہ دینا اور سفید کو سیاہ۔
اچھا چلو مان لیتے ہیں۔ پھر کیا ہوا صحت کامل ہوگئی؟ ہرگز نہ بلکہ ۳۰؍اگست۱۹۰۷ء کو بخار ہلکا ہوا تو: ’’مرزاقادیانی نے ڈاکٹر عبدالستار کی لڑکی مریم کے ساتھ مبارک احمد کا نکاح کر دیا۔‘‘
(ملاحظہ ہو اخبار البدر مورخہ ۵؍ستمبر ۱۹۰۷ء ص۴)
نیز یہ الہام صادر ہوا کہ: ’’مبارک احمد کے متعلق تیسری دعا قبول ہوگئی۔‘‘
وائے قسمت مرزا، یہ سب دل بہلانے کا سامان تھا۔ بلکہ اﷲتعالیٰ نے مرزاقادیانی کو جھوٹا ثابت کر کے رسوا کرنا تھا۔ سو وہ ہوگیا۔ مبارک احمد ۱۶؍ستمبر ۱۹۰۷ء کو مرگیا اور مرزاقادیانی ہاتھ ملتے رہے۔
ماکلما یتمنی المرء یدرکہ
تجری الریاح بما لا تشہی السخن
آدمی کی ہر تمنا پوری نہیں ہوتی۔ کشتیاں باد مخالف کی رو میں آہی جاتی ہیں۔
عمر کی پیشین گوئی
مرزاقادیانی نے اپنی عمر کے متعلق پیشین گوئی میں کہا ہے کہ خدا نے مجھے بشارت دی ہے کہ تیری عمر اسی سال ہوگی یا زیادہ۔ الفاظ بشارت ملاحظہ ہوں۔ ’’موت ماخواستند ودران پیشین گوئی کردند پس خدامارا بشارت ہشتاد سال عمر داد بلکہ شاید ازیں زیادہ۔‘‘
(مواہب الرحمن ص۲۱، خزائن ج۱۹ ص۲۳۹)
میری موت وہ چاہتے ہیں اور ان لوگوں نے پیشین گوئی کی ہے۔ پس خدا نے مجھے بشارت اسی سال عمر کی دی ہے۔ بلکہ شاید اس سے بھی زیادہ۔
مرزاقادیانی کی پیشین گوئی کے بموجب ان کو اسی سال تک یا زیادہ زندہ رہنا تھا۔
اب ہم مرزاقادیانی کی تاریخ پیدائش ان کی زبانی درج کرتے ہیں۔ پھر دیکھتے ہیں کہ موت کب ہوئی اور پھر حساب لگائیں کہ مرزاقادیانی سچے نکلے یا جھوٹے؟
مرزاقادیانی (کتاب البریہ حاشیہ ص۱۵۹، خزائن ج۱۳ ص۱۷۷) پر یوں رقمطراز ہیں: ’’اب میرے ذاتی سوانح یہ ہیں کہ میری پیدائش ۱۸۳۹ء یا ۱۸۴۰ء میں سکھوں کے آخری وقت میں ہوئی اور میں ۱۸۵۷ء میں سولہ برس یا سترہ برس میں تھا۔ ابھی ریش وبرووت کا آغاز نہیں تھا۔‘‘