۔ ’’انا نبشرک بغلام حلیم‘‘ ہم تجھے ایک حلیم لڑکے کی خوشخبری دیتے ہیں۔ ’’ینزل منزل المبارک‘‘ وہ مبارک احمد کا شبیہ ہوگا۔‘‘ (البشریٰ ج۲ ص۱۳۶، ماہ اکتوبر۱۹۰۷ئ)
لیکن مرزاقادیانی کے گھر کوئی لڑکا نہ ہوا۔ بلکہ مرزاقادیانی مورخہ ۲۶؍مئی ۱۹۰۸ء کو لاہور میں بمرض وبائی ہیضہ مر گئے شاید آپ نے توجہ روحانی سے بعد میں بھی لڑکا پیدا کرنے کی کوشش کی ہو۔ مگر معلوم ہوتا ہے۔ وہ بھی بے سود ہی گئی۔
غلط پیشین گوئی ’’عمر پانے والا لڑکا‘‘
مرزاغلام احمد آنجہانی کا چوتھا لڑکا مبارک احمد بیمار ہوگیا۔ فکر لاحق ہوا کہ کہیں مر نہ جائے۔ حالانکہ اس کے متعلق بڑے دعوے کر چکے تھے کہ عمر پانے والا ہوگا۔ وغیرہ وغیرہ!
لہٰذا بہت فکر مند ہوئے۔ چنانچہ دل بے قرار کو تسلی دینے کے لئے اور بیوقوف جاہل مریدوں کو سہارا دینے کے لئے ایک الہام گھڑا۔ الہام ۲۷؍اگست ۱۹۰۷ء کو ہوا تھا اور اخبار بدر ۲۹؍اگست ۱۹۰۷ء کو شائع کیا۔
ان کی نسبت آج الہام ہوا: ’’قبول ہوگئی بعد نو دن بخار ٹوٹ گیا۔ یعنی یہ دعا قبول ہو گئی۔ اﷲ نے میاں صاحب موصوف کو شفا دے دی۔ یہ پختہ طور پر یاد نہیں۔ بخار کس دن شروع ہوا تھا؟ لیکن خداتعالیٰ نے اپنے فضل وکرم سے میاں صاحب کو صحت کی بشارت دی اور نویں دن تپ ٹوٹ جانے کی خوشخبری پیش از وقت عطاء کی۔‘‘
اوّل یہاں مرزاقادیانی کا دجل ملاحظہ کیجئے کہ نویں دن بخار ٹوٹنے کی خوشخبری تو ہے مگر معلوم نہیں بخار کب شروع ہوا؟ بھلا گھر میں ایک بچہ بیمار ہو اور ابھی نودن بھی پورے نہ ہوئے ہوں اور پورا گھر نہیں بلکہ پوری امت مرزائیہ متفکر ہو۔ اس میں بھگدڑ مچی ہو۔ اخبارات میں مرض کے متعلق بلٹن شائع ہورہے ہوں۔ لیکن یہ معلوم ہی نہ ہو کہ کس دن بخار شروع ہوا ہے۔
اسی جگہ متصلاً لکھتے ہیں: ’’نویں دن کی تصریح نہیں کی اور نہ ہوسکتی ہے۔ لیکن یہ معلوم ہے کہ تپ کی شدید حالت جس دن شروع ہوئی۔ وہ ابتداء مرض ہوگا۔‘‘
اب یہ تو معلوم ہو جائے کہ شدت تپ کب ہوا۔ لیکن یہ نہ معلوم ہوا کہ تپ کب شروع ہوا؟ پھر عجیب تماشا یہ کہ تپ کی شدید حالت جس دن سے شروع ہوئی وہ مرض کا ابتداء دن ہوگا۔ اس عبارت پر غور کریں۔ کیا جس دن شدت شروع ہوئی۔ وہ دن شدت علالت کا ہے یا شروع علالت کا؟ کیا ایک آدمی کا مرض جب شدت اختیار کرنے میں آدمی مر جائے تو اب یہ کہیں گے کہ ابتدائی مرض ابتدائے موت تھا؟