گرما گرم دودھیا چاء دار چینی اور الایچی کی لپٹین اٹھتی ہوئی کا پینا شروع کیا۔
حواری… ہم نے مہاراجہ جموں کے ہاں کشمیری باورچیوں کی بنائی ہوئی چاء پی ہے۔ مگر نعوذ باللہ یہ بات اس میں کہاں۔
خوشامدی… یہ تو حضرت اقدس کا اعجاز ہے کچھ چاء تھوڑی ہے۔
۲… ایسی چاء تو بادشاہوں کے یہاں بھی نہیں بنتی۔ یہ نسخہ کوئی الہامی ہے اور یہ ذائقہ نشان آسمانی حضور اقدس کی غلامی کے تصدق میں ہم لوگوں کو یہی نصیب ہوگیا ورنہ ہم کہاں اور یہ نعمت عظمیٰ غیر مترقبہ کہاں۔
۳… یہ بہشتی چاء ہے نعماء جنت۔ انسان کی بنائی ہوئی تو نہیں۔ کیوں حضرت بہشت ہی سے نہیں آتی۔
حضرت اقدس۔بہشت آنجا کہ آزاری نبا شد
کسے رابا کسے کارے نباشد
جنت کیا شے ہے وفیھا ماتشتیہ الا نفس وتلا الا عین اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا نام جنت ہے اپنے بندوں کو وہ ہر ایک جگہ جنت دے دیتا ہے جو اس کے مخلص بندے ہیں ان کو وہ لذت عطا کر دیتا ہے۔
حاضرین… حق ہے حق ہے۔ سبحان اللہ صل علیٰ کیا ارشاد ہوا ہے۔ اتنے میں ایک خادم نے جھک کر آہستہ سے کچھ عرض کیا۔ حضرت کے چہرہ منور کا رنگ متغیر ہوگیا۔ ہوائیاں اڑنے لگیں۔ زردی سی چھا گئی۔ مردنی سی آگئی منہ زرد لب پر آہ سرد۔ ہونٹوں پر خشکی سے پٹریاں جم گئیں۔ زبان پر کانٹین کھڑی ہوگئیں۔ آنکھوں میں بے اختیار اشک جاری۔ حزن و اضطراب کی حالت طاری ہوگئی۔ عنان ضبط و استقلال ہاتھ سے نکل گئی۔ ہر چند دل کو روکا طبیعت کو سنبھالا مگر تو یہ جنون عشق کہیں روکے سے رکتا ہے بے ساختہ زبان پر آیا۔
آہ و نالہ ہے وہی اور وہی رونا ضغیم
پر اثر نالہ و فغان میں کہاں ہے کہ جو تھا
حضرت اقدس… نہایت درد کے ساتھ آہ کھینچ کر انا للہ وانا الیہ راجعون کہہ کر کھڑے ہوگئے۔ کچھ درد سر محسوس کرتا ہوں شاید دوران سر کا دورہ ہو۔ آپ صاحب بھی اپنے کاروبار میں لگ جائیں۔ حضرت اقدس بیت الفکر میں داخل۔