زیارت اسی جگہ بنالیں گے۔
ناظرین! پر بخوبی روشن ہے کہ ہر وقت مرزا جی اور مرزائی جماعت اس دھن میں لگے رہتے ہیں۔ کہ کوئی موٹا مرغا پھنسے کوئی فربہ شکار ہاتھ لگے دھڑا دھڑ چندے ہوں مینار نبی اثاث البیت زیورات سجاوٹ کے سامان عیش و عشرت کے اسباب مہیا ہوں۔ ایک صاحب جھٹ شعر موزوں کر اخبار کی ٹائٹل پیج پر داغتے ہیں۔
چگہ گوئم با تو گر آئی چہا در قادیان بینی
دوسرے صاحب کہتے ہیں۔
نظر آئے گی دنیا کو تیرے اسلام کی رفعت
آنحضرتؐ نے تو یہ دنیاوی سامان بنائے نہ چندے بٹورے نہ زیورات خریدے وہ تو ایک مسافر کی طرح بغیر دلبستگی کے جیسے تشریف لائے ویسے ہی تشریف لے گئے۔ میں حیران ہوں کہ کیسی ظلیت اور کیسی بروزت اور کیسا آئینہ کا عکس مشبہ اور مشبہ بہ میں کچھ تو مماثلت ہونی چاہیے۔ ہم بجز اس کے اور کیا کہہ سکتے ہیں۔
تیرے اسلام کو ہرگز نہیں مینار کی پروا
یہ حیلہ برائے درہم و دنیا یا اللہ
مگو دارالاماں آنرا کہ آں داری ست ار خران
عزیز من مرد آنجا کہ ایمان زیان بینی
اور اس پر یہ غرور اور خشونت اور بد زبانی جیسا کہ اس جماعت کا طریقہ ہے۔ اس کی نظیر دنیا میں نہیں گویا قلم موعظہ حسنہ خلق محمدی یہ جماعت بالکل ضدی مرزا جی کی جماعت میں آگے سے جو موٹے موٹے شکار موجود ہیں کسی کو حکیم الامت کا خطاب کسی کو خلیفہ اول کا کسی کو خلیفہ ثانی کی عزت کسی کو خلیفہ ثالث کا فخر کسی کو خلیفہ چہارم کا عرف بخشا گیا ہے۔ یہ تو معمولی بات ہے۔ کہ جب مرزا جی نے خود خلعت نبوت پہن کر محمد کا روپ دھار لیا ہے تو مریدوں کو خلفاء مبارک کا خطاب ملنا ضروری ہے۔ یہ مرزا جی کی فیاضی ہے۔ چنانچہ فرماتے ہیں کہ خدا کا وعدہ ہے۔ نحن نزلنا الذکرو انا لحافظون قرآن کریم کی گم شدہ عظمت اور عزت کو پھر بحال کرنے کے لیے غلام احمد کی صورت میں یقینا محمد رسول اللہ آیا اور خدا نے آسمان سے قرآن کریم کی حفاظت اور اس کی عظمت و جلال کے اظہار کا ذریعہ پیدا کیا اور ارادہ کیا کہ قرآن کریم کا نزول دوبارہ ہو اور پھر دنیا کو اس کی عظمت پر اطلاع دی جائے اور اس غرض کے لیے اس نے پھر محمد مکیﷺ کے بروزی رنگ