نیچری… نہ تو سرسید نے آج تک نبی ہونے کا دعویٰ کیا نہ ان کے معتقدین نے کبھی ان کو نبی سمجھا۔ نہ خلاف اصول و عقائد اسلام ان میں کوئی عظمت اور فضیلت بتائی نہ پیدا کی۔ حالانکہ کہ اگر سرسید چاہتے۔ تو دعویٰ نبوت میں کامیاب ہوسکتے تھے۔ مگر انہوں نے ایسے دعوے کو الحاد اور ارتداد اور سراسر کفر سمجھا کیونکہ مسلمان تھے۔ اور قرآن پر ان کا ایمان تھا۔ بھلا وہ قرآن کے خلاف کیونکر کرسکتے تھے۔ مرزائیت تو عیسائیت سے پہلے گئی گزری ہے۔ عیسائی عیسیٰ مسیح کو خدا کا بیٹا اور خدا یقین کرتے ہیں۔ مرزا جی بھی ان کی تقلید پر اپنے کو خدا کا لے پالک بتاتے ہیں۔ نہ کہ بیٹا کیونکہ اس سے عیسوی مذہب کے تشبیہ ہوتا تھا۔ لیکن اب بھی بات ایک ہی ہے کہ بیٹوں کی دو ہی قسمیں ہیں۔ صلبی اور متبنی مرزا جی نے تو یہ غضب ڈھایا کہ بندہ المسیح کو گالیاں دیں کیونکہ وہ رقیب اور وراثت کا شریک تھا۔ پس انہوں نے یہ ثابت کرنا چاہا کہ باپ نے صلبی بیٹے کو عاق کردیا ہے کیونکہ اس کے خوارق اچھے نہ تھے۔ اور مجھے گود میں لے لیا ہے۔ لیکن کسی نے یہ دعویٰ تسلیم نہ کیا۔ عیسائیوں نے برأت چاہی اور مسلمانوں نے کافر اور ملحد بنا کر اسلام کی چار دیواری سے بارہ پتھر باہر نکال دیا اور از انسو راندہ ازین سو درماندہ۔ مرزا جی نے سب کچھ بننا چاہا۔ کہ بروزی محمد میں، سنی مسلمان… کرزن گزٹ کا نامہ نگار لکھتا ہے کہ ہم مرزا کو اس وقت سچا جانیں کہ وہ کابل شیراز، ایران، روم، عربستان، بخارا میں خود جا کر یا کسی حواری کو بھیج کر تبلیغ رسالت کریں۔ تو ہم بھی نقد چہرہ شاہی حال کا دس ہزار روپیہ نذر کریں گے۔ اس شرط پر کہ وہ مرقومۃ الصدر شہروں میں پہنچ کر ہم کو ایک خط بھیجیں کہ لو صاحب ہم وہاں پہنچ گئے۔ اور اشاعت دین احمدیہ (مرزائیہ) کر رہے ہیں ہم اسی وقت خالص اور کھرے کھرے دس ہزار سے پانچ ہزار گن کر حوالے کردیں گے اگر ضمانت مانگتے ہیں۔ تو ہم مولوی سراج الدین احمد صاحب بیرسٹر ایٹ لا مالک چودھویں صدی کو پیش کرتے ہیں۔ مگر ساتھ ہی اپنی وحی بھی شائع کردیں گے جو ہم کو اس وقت ہوگی کہ مرزا صاحب پھر مع الخیر کبھی قادیان (جس کودارالامان کہتے ہیں) کی ہوا کھائیں گے یا اس ملک کے لوگ آپ کی