تھا۔ اور نہ میرے احباب کی رائے ان کے تسلیم کرنے کی تھی۔ مگر محض اس خیال سے کہ مرزا صاحب کو کوئی راہ یا حیلہ مناظرہ سے گریز کا نہ ملے۔ یہ سب باتیں منظور کیں پھر کل کا معاملہ کہ پرچہ لے کر سر پکڑ کے بیٹھ گئے کہ میں جو اب مجلس مناظرہ میں نہیں لکھ سکتا۔ کل ۱۰؍بجے آئیں اور آپ زنان خانہ میں چھپ کر بیٹھ رہے اب اخیر تک پہنچائے بغیر اٹھ چلنا حماقت نہیں تو کیا ہے؟
حاجی صاحب… پھر بیٹھے رہیے وہ تو (مرزا صاحب) باہر آتے نہیں مکان کا بیع نامہ آپ کے نام نہیں لکھا گیا۔ اگر جبراً نکلوا دیا جائے۔ تو عزت رہ جائے گی یہ اخلاق مسیحی ہے جو آپ دھرنا مار کر بیٹھے ہیں۔ باہر پولیس کا پہرہ موجود ہے۔ مداخلت بے جا نہ میں ماخود نہ ہو جائیے گا۔
مولوی صاحب… یہ سب قبول مگر بات کو ایک طرف کیے بغیر اٹھنا قبول نہیں۔
خادم… حضرت اقدس فرماتے ہیں۔ ابھی جواب تیار نہیں ہوا۔
حاجی صاحب… مولوی صاحب بھی خوش تو بہت ہوئے ہوں گے اب اور فرمائے کچھ اور بھی حسرت ہے۔
مولوی صاحب… تو ہم جائیں یا بیٹھے رہیں۔
خادم… (اندر سے واپس آکر) آپ تشریف لے جائیں۔ جب جواب تیار ہوگا۔ اس وقت آپ کو بلا لیا جائے گا۔ دو بجے مرزا صاحب نے مولوی صاحب کو جواب سنا کر دستخط کرکے دیا اور فرمایا کہ مجلس بحث میں جواب لکھنے کی ضرورت نہیں ہے۔ آپ مکان پر لے جائیں۔
چھ دن بحث کا سلسلہ جاری رہا تین پرچہ مولوی صاحب کے اور تین پرچہ مرزا صاحب کے ہوئے اور بحث ناتمام رہ کر سلسلہ بحث منقطع ہوا۔
مرزا صاحب… مجھے زیادہ قیام کی گنجائش نہیں رہی میرے خسر بیمار ہیں۔
مولوی صاحب… (ایک مضمون جو پہلے بہ نظر احتیاط لکھ رکھا تھا۔ اور متضمن اس امر پر تھا کہ مرزا صاحب کی جناب سے نقض عہد و مخالفت شروط ہوئی) مرزا صاحب کی موجودگی میں پڑھ کر سنا دیا گیا۔ یہ احتمال اوّل ہے۔ اس پر کہ ان کے پاس اس مسئلہ یعنی ان کے مسیح موعود ہونے کی کوئی دلیل نہیں ہے۔ اصل بحث کے لیے دو روکاوٹیں انہوں نے بنا رکھی ہیں۔ ایک بحث حیات و وفات مسیح علیہ السلام (جو سرسید بالقابہ کی بنیاد ڈالی ہوئی ہے) دوسری نزول عیسیٰ علیہ السلام۔
جب دیکھا کہ ایک روکاوٹ جو ان کے زعم میں بڑی راسخ تھی ٹوٹنے کے قریب ہے۔ اس کے بعد دوسری روکاوٹ کی جو ضعیف ہے۔ نوبت پہنچے گی۔ پھر کھل کر قلعہ پر حملہ ہوگا۔ وہاں