جائیے اب بیٹھنا بے کار ہے۔ مرزا صاحب کو صاحب بہادر پولیس کی حفاظت میں ان کی گاڑی تک پہنچا دیا۔ مسجد میں سناٹا ہوگیا۔
۱… افسوس آج بھی لوگ محروم ہی گئے۔ مگر آج تو بہت بری ہوئی مرزا صاحب آج پھنس کیسے گئے۔ یہ تو دم میں آنے والی اسامی نہیں تھی۔ ایک مہینہ ہوگیا اشتہار بازی بھی ہوتی رہی مگر مقابلہ پر ایک دفعہ بھی آتے نہ دیکھا۔ جس کی کہ مزید تیاریاں ہوئیں۔
۲… اس سے پہلے جو اشتہار جاری ہوا تھا۔ اس میں میاں صاحب نے انکار کر دیا تھا۔ مرزا صاحب دھوکہ میں آگئے۔ کہ شاید وہ نہ آئیں۔ تو پھر میدان ہمارے ہاتھ رہ جائے گا۔ میاں صاحب نے بایں ہمہ پیرانہ سالی اور ضعیف العمری کے کوئی حجت باقی نہیں رکھی۔
۳… آج تو مرزا صاحب کے منہ پر زردی چہرہ پر مردنی چھا گئی۔ ہونٹوں پر خشکی کے مارے پڑیاں جم گئی تھیں۔ خشک زبان سے بولا بھی نہیں جاتا تھا۔ دل میں تو بہت پچھتائے ہوں گے میں کہاں آپھنسا۔ اپنے پائوں پر آپ کلہاڑی مار لی۔ جاتی بلا اپنے گلے ڈال لی۔
ہر کس از دست غیر نالہ کند
سعدی از دست خویشیں فریاد
۴… میاں آج تو جس حالت سے گئے ہیں تمام عمر ہی یاد رکھیں گے۔
نکلنا خلد سے آدم کا سنتے آتے تھے لیکن
بہت بے ابرو ہو کر تیرے کوچہ سے ہم نکلے
۵… میاں ایسی کیا ضرورت تھی۔ یہ لوگ بھی دیوانہ ہوگئے ہیں۔ آزمودہ را آزمودن جہل است۔ جب مرزا صاحب نے ایک دفعہ دو دفعہ تین دفعہ ہمیشہ مناظرہ کو ہزار بات اور ہزار حیلہ سے نکال کر ٹال دیا اب کیا امید تھی۔ اور کس بھروسہ پر لوگ بھاگے چلے آتے ہیں۔ اپنے اوقات عزیز کی تضیع کرتے ہیں۔
۶… تم نے سنا ہوگا۔ اور اشتہارات تو دہلی کی دیواروں پر لگے دیکھے ہوں گے قطع حجت کے واسطے کہ عوام دھوکہ میں نہ پڑ جائے۔ حضرت میاں صاحب نے مرزا صاحب کی ہر ایک درخواست کو منظور کیا۔ اس مرتبہ یہ درخواست تھی۔ کہ اگر میاں صاحب بحث کرنا نہیں چاہتے۔ تو میرے دلائل وفات مسیح ایک مجلس میں اللہ جل شانہ کی تین قسم کھا کر یہ کہہ دیجیے۔ کہ دلائل صحیح نہیں ہیں جس سے عوام لوگ یہ سمجھیں کہ گویا جناب شیخ الکل مرزا صاحب سے مناظرہ نہیں کرتے۔ اس کا جواب حضرت مولانا صاحب نے بذریعہ رقعہ بمنظوری شرائط مرزا صاحب کو لکھا۔